''رشتے، چاہت، شہرت، دولت
تیرے لیے سب بے مایہ
تارا ہے کسی کی آنکھوں کا تو
اور نہ کسی کا ماں جایا
ہے دوست نہ کوئی ہم سایہ
میدانوں سے آنکھوں کی گزرتا اک سایہ
مقصود علی! مقصود علی!
دیوانہ ہے تو ہم کو بتا
یا کوئی ولی؟
''وہ روز ازل کا دہرایا
ہے اک سایہ
جس کی اک دنیا ہے اپنی
دہشت کے محور پر گرداں
وہ دنیا روز و شب میں جو تقسیم نہیں
خانوں میں بٹی تقویم نہیں
جو راز ہیں ہم سے مخفی
اس پر ظاہر ہیں
وہ قلب ہستی کے اندر
ہم باہر ہیں
معدوم ہے وہ موجود ہو تم
وہ لا حد ہے محدود ہو تم
ہستی کے عالم سے بالا
ہرگز وہ تم سے بات نہیں کرنے والا
وہ سناٹے کا ہرکارہ ہے، ہونٹ سلے
ہے دور کہیں، ہم سب سے پرے
کہرے میں گھری آواز پہ اپنے کان دھرے
(یا غار قدیمی کی سنگیں تاریکی میں
بحر آغاز کے پانی کا
پر ہول تقاطر سنتا ہے
اور جھک کر بہتے پانی سے
تاروں کے ذرے چنتا ہے)
وہ روز ازل کا دہرایا
اک سایا ہے
جو درہم برہم کر دینے دنیا کو ہماری آیا ہے''
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.