Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردانہ کمزوری

شعیب کیانی

مردانہ کمزوری

شعیب کیانی

MORE BYشعیب کیانی

    کوئی اپنا مرا

    میرا اپنا مرا

    میرے آنگن میں ماتم کی صف بچھ گئی

    عورتیں بین کرتی رہیں

    بچے روتے رہے

    میں نہیں رو سکا

    میری پہلی محبت جو سچی بھی تھی

    اور سچی بھی تھی

    جب کسی نے اسے مسترد کر دیا

    میرے سینے میں یک دم گھٹن بھر گئی

    سانس رکنے لگی

    میں نہیں رو سکا

    مجھ پہ تہمت لگائی کسی شخص نے

    میرے کردار کی لاش پر پاؤں رکھ کر وہ اونچا ہوا

    میرے پیروں کے نیچے زمیں نہ رہی

    میں نہیں رو سکا

    جیسے چرواہا جھولی میں پتے دکھا کر

    جو ہوتے نہیں ہیں بلاتا ہے اپنی طرف بکریاں

    مجھ کو ایسے کسی نے کہا آ محبت کریں

    اس کے نزدیک جا کر کھلا

    اس کی جھولی میں چاہت کے پتے نہیں

    میری چیخیں گلے میں رکی رہ گئیں

    میں نہیں رو سکا

    میں نے دفتر میں اک نوکری ڈھونڈ لی

    تھوڑا تھوڑا وہاں روز مرتا رہا

    کام کرتا رہا

    میرے کانوں میں لاوا انڈیلا گیا

    میرے چہرے کی رونق مٹائی گئی

    ایک اک رگ سے خوں کو نچوڑا گیا

    میرا سارا بدن زرد ہوتا رہا

    درد ہوتا رہا

    میں نہیں رو سکا

    میرے کاندھے پہ عورت کو رکھا گیا

    پشت پر باپ کا کنبہ لادا گیا

    سر پہ کوے بھی بھوکے بٹھائے گئے

    میرے ہاتھوں میں تلوار دے دی گئی

    مجھ کو میرے خدا سے ڈرایا گیا

    جب کمر جھک گئی

    میں گھسٹ کر چلا

    کہنیاں چھل گئیں

    گھٹنے زخمی ہوئے

    خون رستا رہا

    میں نہیں رو سکا

    حادثوں آفتوں

    بم دھماکوں وباؤں میں اور جنگ میں

    میرے اپنوں کی لاشیں اٹھائی گئیں

    میرا دل بھر کے آنکھوں تلک آ گیا

    میں نہیں رو سکا

    رات دنیا سے چھپ کر

    میں ایسے جہاں کو خیالوں میں

    لاتا ہوں جس میں سبھی دوست ہوں

    اس طرح جس طرح

    پیڑ کی ایک ٹہنی کٹے تو سبھی ٹہنیاں

    خود پہ محسوس کرتی ہیں

    آرے کے دانت

    اور سبھی ٹہنیاں اپنا رس بانٹتی ہیں کٹی شاخ سے

    پھر کئی ٹہنیاں پھوٹتی ہیں اسی شاخ سے

    ایک ایسے جہاں کو خیالوں میں لاتا ہوں

    جس میں سبھی عورتیں

    شادمانی میں کھل کر ہنسیں

    درد میں مرد بھی رو سکیں

    میں بہت رو کے چلا کے دنیا کو بتلا سکوں

    میرے اعصاب میں کس قدر درد ہے

    میں تصور میں لاتا ہوں ایسی جگہ

    جس جگہ مجھ کو روتا ہوا دیکھ کر

    کوئی یہ نہ کہے

    مرد بن مرد بن

    صبح ہوتے ہی میں

    اپنی ساری اذیت کو

    کاندھوں پہ لادے ہوئے کام پر جاتا ہوں

    اس جہاں کے خیالوں سے باہر نکل آتا ہوں

    کیوں کہ ایسا جہاں

    میری مردانگی کو گوارا نہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے