تو چھن گیا تو لگا جیسے
لکیریں میری ہتھیلی کے کاغذ سے گر گئی ہیں
اور ہاتھ کفن سے زیادہ
سفید ہو گئے ہیں
اب جانے کون سے لمحے کی پر کار
لائینوں کی عبارت دوبارہ لکھے
میں نے جیت ادھار تو نہیں مانگی تھی
ہجر کسی ظالم چودھری کی طرح
تمام وصل کا اناج اٹھا کر لے گیا ہے
اور بھوک جسم پہ بالوں کی طرح اگنے لگی ہے
وقت سے میرا مذاق کبھی نہیں رہا
پھر جانے کیوں
سب یہ مجھ سے کسی بہت قریبی دوست کی طرح
کھیلتا رہتا ہے
تیرے آنسو میری آنکھوں کو
نرگس کا سونپ کر گئے ہیں
جانے سرخ گلاب کا ذائقہ بینائی کب چکھے
سنو
رستے ابھی اپنے مسافر بھولے نہیں
لوٹ آؤ
ورنہ معلوم ہے تمہیں
اب نیا گھر بنتے دیر نہیں لگتی
رستے سکڑی ہوئی کلیاں
اور کھیت صحن بننے سے پہلے چلے آؤ
کہ طویل دوریاں
اپنے محور سے ہٹنے کے مترادف ہیں
اور مدار سے نکلے ہوئے چاند
ایک دن اخبار کی سرخی بن کر
باقی ردی کے بھاؤ بکتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.