مسیحا کہ قاتل
تم مسیحا ہو کہ قاتل ہو میں کیوں بتلاؤں
خود یہ تاریخ کے اوراق بتائیں گے تمہیں
تم ہو معمار نئی زیست کے یا قاتل ہو
فیصلہ وقت کے ہاتھوں سے یہی ہونا ہے
دوڑ ہر سمت ہے پھر ٹینکوں طیاروں کی
امن عالم ہے کہ پھر زد پہ ہے ہتھیاروں کی
ہر طرف جنگ کے حالات بنا رکھے ہیں
ہاتھ مظلوم کے پتھر میں دبا رکھے ہیں
تم نے اس دور کو سرمایہ کی زنجیروں سے
قید کر رکھا ہے ہر سمت جکڑ رکھا ہے
عصمتیں عزتیں سب قید میں ہیں
محنتیں راحتیں سب قید میں ہیں
زیست پروان چڑھے گی کہ نہیں
زخم دل پھول بنیں گے کہ اجل
خود یہ تاریخ کے اوراق بتائیں گے تمہیں
تم مسیحا ہو کہ قاتل ہو میں کیوں بتلاؤں
شہر و دیہات کی نعروں سے فضا گونجے گی
جلد ٹوٹے گی یہ زنجیر صدا گونجے گی
آج محنت ہے اگر قید رہا بھی ہوگی
زندگی کے لئے آزاد فضا بھی ہوگی
محنت و راحت و عزت کا لہو
اب ترے جام سے ہے جلد چھلکنے والا
چھپ سکیں گے نہ چھپانے سے لہو کے دھبے
خود ہی اک دن ترے دامن پہ ابھر آئیں گے
خود ہی تاریخ کے اوراق پکار اٹھیں گے
کہ مسیحا نہیں اس دور کے قاتل تم ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.