موسم
اسیر آرزو ہجوم بے اماں
شراب روز و شب کی آتش رواں میں
برہمی کے قہقہوں کی بازگشت
اب ہمارے درمیاں
عجیب خواہشوں کے بیج بو رہی ہے
میرے واسطے جو اجنبی ہے
اس کو پاس سے گزرتا دیکھ لوں تو اس کی روشنی
کو نوچ لوں
جو اس کے خون میں اتر رہی ہے
اس کے ایک پل کو دوسرے سے جوڑتی ہے
تیرتی ہے سانس میں
ہوا کی وہ شریر موج چھین لوں
وہ جانور ہماری نسل کا نہیں
وہ کیوں ہنسے وہ کیوں جیے
ہمارے روبرو ہماری آرزو کے روبرو
وہ اس زمیں پہ کیوں چلے
عجیب خواہشیں عجب خواہشوں کی ہم سفر
ہر ایک آئنہ مگر ہے دوسرے کے سامنے
غلیظ صورتیں غلیظ صورتوں کے سامنے
میں اجنبی وہ اجنبی
اسیر آرزو بھی مگر سیاہ کا دل دل بے خبر
وہ دائرہ رواں ہے جس کے ہر سفر کی انتہا
مقام مرگ تازگی مقام مرگ نغمگی
ہوا نمی سفید دھوپ زرد پھول دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے
ہماری آرزو کے بیچ موسموں پہ چھا گئے
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 14)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.