موت کا سال
دلچسپ معلومات
(کووڈ-19 سے پھیلی دہشت کے عالم میں)
یہ عہد نو کا چلن ہے یا یہ شوق تمہارا ازلی ہے
تم کلینڈر تاریخوں کو
کسی اور ہی نام سے جانتے ہو
یاں جذبے رشتے فکر اور فرد ایام سے ہیں منسوب سبھی
کبھی درماں کرنا چاہا کچھ امراض کا دے کر دن کا خراج
جنگیں بھی تمہاری ہی ایجاد
اور یوم امن کا ڈھونگ بھی تم
تم وہ جو صورت قہر گرے
اس روئے زمیں کے شہروں پر
پھر ان شہروں کے نام سے دن منسوب بھی کرنے والے تم
ہاں بھول گئے اس ہستی کو
مخصوص کوئی بھی یوم نہیں ہے اس کے جشن چراغاں کو
ہو جس کی سیہ زلفوں کے اسیر اول دن سے
کیا کیا نہیں حیلے تم نے کیے
میری ہی طلب کی انگلی تھامے ایٹم بم ایجاد کیا
کبھی زیر زمیں راہ آتش ہموار کیا
کبھی دیکھا چشم فلک نے منظر جب
تم تھام کے باہیں میری تھے مسرور بہت
اک عہد حجر سے مصنوعی فطانت تک
جب بھی کوئی خوں آشام صدا ٹکرائی میرے کانوں سے
میں پیر میں گھنگھرو باندھ اٹھی
انکار کیا تم نے جب میرے جشن چراغاں کا
میں نے اک سال مکمل اپنے نام کیا
لیکن تم نے
حرف غلط کا نام دیا
چاہا کہ کر دو محو مجھے اس روئے زمیں کے صفحے سے
سال نو کی اس اجلی تابندہ فضا میں
فیصلہ اپنے ہاتھ میں لو
یا میری پرستش بند کرو
یا میرے نام اک جام کرو
چیئرز کہو
یہ سال بھی میرے نام کرو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.