موت میری جان موت
تو بڑی مدت سے میری تاک میں ہے
زندگی ممتا بھری ماں
اور تو اے موت اک معشوقہ وا آغوش
ریت اور پتھر ہزاروں سال ہم بستر رہے لیکن
گھاس کی پتی بھی پیدا کر نہ پائے
زندگی اور یہ زمانہ بھی بڑی مدت سے ہم آغوش ہیں
خیر اس قصے کو چھوڑ کر
دیکھ
ریچھ کے پیروں سا دست سود خوار
اپنے ٹیڑھے میڑھے ناخن
یا تری وحشی نگاہ
میرے سینے میں گڑ دئیے جا رہا ہے
آنکھ
خلوت کی جھلستی ریت پر
آب پاش
اور تپتی ریت سے
کوئی کونپل
کوئی رنگ
کوئی خوشبو
کوئی شے اٹھتی نہیں
ایک بھورا پن
خلوت بے رنگ کو بد رنگ کر جاتا ہے بس
روشنائی خشک نب ٹوٹی ہوئی کاغذ کی آنکھیں نم
دیمکوں کا گھر دماغ
اور میری تاک میں تو
کیوں رگ و پے میں سرایت کر رہا ہے یہ سیاہ احساس
لمحہ لمحہ ختم ہوتا جا رہا ہوں
آنکھ سے ٹپکے ہوئے اشکوں کے ساتھ
قطرہ قطرہ ختم!
نقطہ نقطہ ختم!
چھ تبسم قرض لے کر
سود میں اپنے بدن کا گوشت ادا کرنے کے ہر وعدے کے ساتھ
ختم ہوتے جا رہے مجھ کو اگر پا بھی گئی تو کیا کرے گی
موت میری جان موت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.