موت میری سکھی
موت میری سکھی
میرے ہی سنگ آنگن میں کھیلی بڑھی
میری پوشاک میرے دوپٹے پہ وہ اپنے ہی پیارے ہاتھوں سے
چاند اور تارے اگاتی رہی
زندگانی سے مجھ کو لڑاتی رہی
موت میری سکھی
میرے ہی سنگ کھانے کے لقمے بھرے
میں بھری چاند راتوں میں مٹی کی کوری صراحی سے
پانی پلاتی رہی
سردیوں کی ٹھٹھرتی سیاہ رات میں
اور سفیدے سے لبریز کہرے بھرے
دن کو اپنے کھلے بازوؤں میں بلاتی رہی
موت میری سکھی
میری تنہائیوں کی کڑی دھوپ میں
چھاؤں بن کر مرے ساتھ چلتی رہی
موت میری سکھی میری نبضوں کی وہ راز داں
میرے آنسوؤں کی سب آہٹیں اس کے ہاتھوں سے لکھی گئیں
نفرتوں اور محبت کی سب پرچیاں میرے دامن میں گرتی رہیں
موت میری سکھی ان کو چنتی رہی
آج میری سکھی موت میری سکھی
مجھ سے ہی روٹھ کے میرے گھر سے چلی
میں وداعی کے سب گیت ہونٹوں میں بھینچے
اسے دیکھتی ہی رہی
مجھے چھوڑ کر یوں نہ جاؤ
تمہارے بنا میرے آنگن کا تنہا شجر
سوکھتے سوکھتے ایک دن اس زمین پر بکھر جائے گا
اور معصوم چڑیاں بنا موت مر جائیں گی
زندگی سے جو ناتا ہے کٹ جائے گا
موت میری سکھی
آؤ پھر مجھ کو اوڑھو مجھے پہن لو
آؤ پھر مجھ کو اپنے گلے سے لگا لو
محبت سے پھر آسماں پر اٹھا لو
چلی آؤ میری سکھی
موت میری سکھی
- کتاب : meyaar (Pg. 148)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.