موت
اپنی سوئی ہوئی دنیا کو جگا لوں تو چلوں
اپنے غم خانے میں اک دھوم مچا لوں تو چلوں
اور اک جام مئے تلخ چڑھا لوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں
جانے کب پی تھی ابھی تک ہے مئے غم کا خمار
دھندلا دھندلا نظر آتا ہے جہان بیدار
آندھیاں چلتی ہیں، دنیا ہوئی جاتی ہے غبار
آنکھ تو مل لوں ذرا ہوش میں آ لوں تو چلوں
وہ مرا سحر وہ اعجاز کہاں ہے لانا
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
مرا ٹوٹا ہوا وہ ساز کہاں ہے لانا
اک ذرا گیت بھی اس ساز پہ گا لوں تو چلوں
میں تھکا ہارا تھا، اتنے میں جو آئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اف وہ رنگین پر اسرار خیالوں کے محل
ایسے دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں
مجھ سے کچھ کہنے کو آئی ہے مرے دل کی جلن
کیا کیا میں نے زمانے میں نہیں جس کا چلن
آنسوؤ تم نے تو بے کار بھگویا دامن
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھا لوں تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے محبت کا غرور
میرے ہونٹوں کو ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے شرافت کا غرور
ایسے وہموں سے ذرا خود کو نکالوں تو چلوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.