Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دن کے روپ میں رات کہانی

میراجی

دن کے روپ میں رات کہانی

میراجی

MORE BYمیراجی

    رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں

    جھلملاتے ہوئے کمزور ستارے یہ کہے جاتے ہیں

    چاند آئے گا تو سائے بھی چلے آئیں گے

    رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے

    رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی

    یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی

    رات کے پھیلے اندھیرے ہیں کوئی سایہ نہ تھا

    رات کا پھیلا اندھیرا محتاج

    اک بھکاری تھا اسی پہلی کرن کا جو لرزتے ہوئے آتی ہے جگا دیتی ہے

    سوئے سایوں کو اٹھا دیتی ہے بیداری میں

    زیست کے ہلتے ہوئے جھومتے آثار نظر آتے ہیں

    زیست سے پہلے مگر بات کوئی اور ہی تھی

    رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا

    چاند کے آنے پہ سائے آئے

    اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے

    لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ

    اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے

    کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں

    اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں

    اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا

    دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے

    ایک سایہ ہے لرزتا سایہ

    اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ

    ایک سایہ ہی نظر آتی تھی

    ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو

    اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا

    سایہ خاموش رہا کرتا ہے

    اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پہ بھی خاموشی ہی

    راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی

    اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے

    لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ

    اور بھی سائے تھے ہلکے گہرے

    کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں

    اپنے آغوش میں سایوں کو لئے بیٹھی تھیں

    اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا

    دل کا غم دل کی خلش دل کی تمنا ہر شے

    ایک سایہ ہے لرزتا سایہ

    اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ

    ایک سایہ ہی نظر آتی تھی

    ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو

    اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا

    سایہ خاموش رہا کرتا ہے

    اور اک لرزش بیتاب کے ہونے پر بھی خاموشی ہی

    راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی

    سیدھا جاتا ہوا رستہ بھی تو اک سایہ تھا

    اس پہ آتے ہوئے جاتے ہوئے انسان تمام

    دھندلے سائے تھے مگر سائے تھے

    میں بھی جاتا ہوا آتا ہوا اک سایہ تھا

    میں بھی اک سایہ تھا کس کا سایہ

    کس کے قدموں سے لپٹتے ہوئے چپ چاپ چلا جاتا تھا

    کہہ تو دوں دل میں یہ غم ناک خیال آتا ہے

    سایہ خاموش رہا کرتا ہے

    رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں

    دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں

    بیتی لذت کی کہانی سے

    اور مری مستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے

    جس کے ایک کنارے کو شعاع سوزاں

    اپنی شدت سے جلانے پہ مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے

    کاش آ جائے گھٹا چھائے گھٹا اور بن جائے

    چڑھتے سورج کا زوال

    چڑھتا سورج یہ بتا دیتا ہے

    بڑھتے سائے ہیں کسی کے غماز

    بہتے بہتے یہ کہے جاتے ہیں

    رات کے جاگے ہوئے سوئے ہوئے اٹھے ہیں

    دھوپ کھاتے ہوئے لٹکے لٹکے

    جب کوئی پیرہن آویزاں

    ایک جھونکے سے لرز اٹھتا ہے

    ہم نوائی کو لرزتا ہوا سایہ بھی کہے جاتا ہے

    بیتی لذت کی کہانی سب سے

    بیتی لذت بھی مرے واسطے اک سایہ ہے

    کسی سورج کے تلے آتے ہوئے بادل کا

    سرسراتے ہوئے جھونکے کی طرح آتا ہوا جاتا ہوا

    باتیں کرنے کو وہ اک پل بھی نہیں رکتا تھا

    دن کا سایہ تھا اسے رات کی اک بات بھی معلوم نہ تھی

    رات اک بات ہے صدیوں کی کئی صدیوں کی

    اور اب دن ہے مجھے سائے نظر آتے ہیں

    بولتے سائے نظر آتے ہیں

    جانے پہچانے ہیں پھر بھی نئے مفہوم سمجھاتے ہیں سمجھاتے ہی چلے جاتے ہیں

    پھر پلٹ آتے ہیں

    جیسے میں جاتا تھا اور جا کے پلٹ آتا تھا

    اسی رستے پہ جو اک سایہ تھا

    راستہ آج بھی سایہ ہے مگر اک نیا سایہ ہے

    راہ میں ایک مکان

    وہ بھی سایہ ہے اداسی کا گھنیرا سنسان

    راہ میں آتی ہوئی ہر مورت

    ایک سایہ ہے چڑیل

    حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں

    دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں

    آنکھوں میں خون اتر آتا ہے

    سامنے دھند سی چھا جاتی ہے

    دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے

    اور میں دیکھتا ہوں

    سائے ملتے ہوئے گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں

    ہنہناتے ہوئے ہنستے ہیں پکار اٹھتے ہیں

    دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی

    دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی

    سایہ خاموش رہا کرتا ہے

    دیکھ ہم بولتے ہیں بولتے سائے ہیں تمام

    ہم سے بچ تو کہاں جائے گا

    اور میں کانپ اٹھا کرتا ہوں

    اور وہ بولتے ہیں

    کانپ اٹھا ہے لرزتا ہے یہ بزدل ناکام

    بات کرتا ہی نہیں ہے کوئی

    اب بھی شاید یہ سمجھتا ہے لرزتے دل میں

    سایہ خاموش رہا کرتا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے