مہمان خصوصی
ایک دن حضرت حافظ نے یہ دیکھا منظر
طوق زریں سے مزین ہے ہمہ گردن خر
اور چھکڑے میں جتا رینگ رہا ہے تازی
زخم ہی زخم ہے کوڑے کا ز سر تا بہ کمر
تھے جو مرحوم بڑے سادہ دل و نیک مزاج
''ایں چہ شوریست'' کہا اور گرے چکرا کر
وہ تو اس غم کو لیے خلد بریں میں پہنچے
کئی صدیوں کا زمانے نے لگایا چکر
آج ہم پر بھی مگر جبر نظارہ ہے وہی
وہی نیرنگ تماشا وہی نیرنگ نظر
وہ چراگاہ سیاست ہو کہ میدان ادب
طوق زریں ہے وہی اور وہی گردن خر
اختیارات کی کرسی پہ خران فربہ
متمکن نظر آتے ہیں بہ صد کر و فر
ایک کرسی پہ کسی طرح اچک کر پہنچے
اور پھر دھڑ سے کھلے کشف و کرامات کے در
پھر تو بقراطؔ اور ارسطوؔئے زمانہ ہیں وہ
علم و حکمت میں نہیں پھر کوئی ان کا ہمسر
پھر تو صحرائے جہالت بھی ہے دریائے علوم
پھر تو اس بے ہنری میں بھی ہیں سو سو جوہر
خواہ دو حرف بھی تعلیم نہ حاصل کی ہو
طوق زریں کے کرشمے سے بنے دانشور
کوئی جلسہ ہو وہ ''مہمان خصوصی'' ہوں گے
کوئی موقع ہو دھڑلے سے وہ دیں گے لیکچر
وہ زمیں کے ہوں مسائل کے خلا کی باتیں
مثل مقراض زباں چلتی رہے گی فر فر
عالم و فاضل و دانشور و اہل حکمت
سب نظر آئیں گے قدموں پہ جھکائے ہوئے سر
طوق زریں کا جو اس کو نہ کرشمہ کہیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.