مینو پاز
عجیب سی اطلاع تھی وہ
جسے میں خود سے نہ جانے کب سے چھپا رہی تھی
عجب خبر تھی کہ جس کی بابت
میں خود سے سچ بولتے ہوئے ہچکچا رہی تھی
عجیب دکھ تھا
کہ جس کا احساس جاگتے ہی
میں اپنے محرم سے
اپنے ہمدم سے ایسے نظریں چرا رہی تھی
کہ جیسے مجھ میں کہیں کوئی جرم ہو گیا ہو
عجب خبر تھی
جسے مرا دل قبول کرنے سے منحرف تھا
مگر حقیقت کا معترف تھا
کہ شاخ جاں پر گلاب کھلنے کے موسموں کو
وداع کہنے کی ساعتیں اب قریب تر ہیں
قریب تر ہے کہ خشک ہو جائیں گے وہ سوتے
کہ جن کی تہ میں
ہزار تخلیق کے خزانے چھپے ہوئے تھے
وہ آب حیواں
وہ انبساط و حیات کا بے کنار دریا
کہ دفن ہو جائے گا خس و خاک روز و شب میں
یہاں سے عمر گریز پا جو نکل پڑی اور راستے پر
تو سوچتی ہوں کہ جاتے جاتے
میں اپنے خالق سے یہ تو پوچھوں
خدائے ستار
عصمتوں کو ہزار پردوں میں رکھنے والے
صفات میں تیری عدل بھی ہے
تو پھر مرے
اور میرے محرم کے بیچ تفریق کا سبب کیا
وجود کی کیمیا گری میں
یہ بانجھ پن کا عتاب تنہا مرے لیے کیوں
یہ خشک سالی کا ایسا اعلان خاص
قحط نمو کا عریاں عذاب تنہا مرے لیے کیوں
اے میرے ستار و کیمیا گر
یہ روز و شب کا عذاب تنہا مرے لیے کیوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.