ذہن پہ اک گھٹا سی چھائی ہے
لفظوں کی انجانی بوندیں برس رہی ہیں
کوئی معنی شاید نکلیں؟
زخمی طائر میرے قلم سے لپٹ گیا
اور اس کے پہلو میں اک ننھا سا تیر ہے
تیر میں اک کاغذ بھی ہے
اب کے میرے جنم دن پر
کس نے مجھ کو یاد کیا ہے؟
میں نے کاغذ کھول کے دیکھا
کچھ بھی نہ تھا
صرف ٹوٹی ٹوٹی چند لکیریں تھیں
ایسے خط آتے رہتے ہیں
نام نہیں ہوتا جن پر
بات نہیں بنتی لیکن
بات بنے گی کیسے؟
جب پہلو میں خار لگا ہو
آنکھوں میں نم آ بھی چکا ہو
جنم جنم کے سودے میں تم
سب سے آگے نکل گئے ہو
سارے ساتھی چھوٹ گئے
غم کے چھالے پھوٹ گئے
جینے کی امید نہیں ہے
پھر بھی تم اب تک جیتے ہو
عمر تمہاری موت سے آگے نکل گئی ہے
سناٹے میں جینا کتنا مشکل ہے
خواہش کے صدمے بھی نہیں ہیں
- کتاب : shab khuun (rekhta website)(291) (Pg. 12)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.