میرا کاغذ کئی جنموں سے سفید ہے
دیا بجھا دو
اب اندھیرے سے خطرہ نہیں
روشنی کے ڈسنے کا
امکان زیادہ ہے
بخار کی حدت میں بہتے وجود پر
اک وجد طاری ہو گیا
تڑپتی روح سے جڑا لا شعوری حاشیہ دیکھ کر
سانسوں کی مہک بدلنے لگی
جسم جلنے کی بدبو سے اکتائے
کمرے کی وحشت منہ چھپائے
اک کونے میں بیٹھی آگ
سرد گوں ہے
چیخ کا دورانیہ
رات کے آخری پہر تک محدود تھا
خزاؤں کی مجموعی حکمت عملی
بہار شکست کھاتی دکھائی دی
دن کے سائے بڑھنے لگے
اور پھر پھول نے خودکشی کی
جس میں زندگی کی سوئی ناچتی ہے
وہ لمحہ مر گیا ہے
کوئی قہقہہ گونجتا ہوا سماعتوں پہ تھپڑ لگا
ہنسنے سے وحشت بیدار ہونے لگی
انسانی آوازوں کی گونج سے دور بھاگتی
چناب کنارے ریت پر بیٹھی میں
کیا لکھوں
سیاہی سرخ ہے اور
میرا کاغذ کئی جنموں سے سفید ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.