میرا وطن یہی ہے
یہ دل کی راہیں اداس کیوں ہیں امید کے قافلے کہاں ہیں
ہم اپنے کوچوں میں اجنبی ہیں ہم اپنے ہی گھر میں میہماں ہیں
یہی ہے مرکز ہمارے ہر خواب آرزو کا
یہی وطن ہے یہی ہے مسکن وفا امید و جستجو کا
یہی وطن ہے اسی کے کوچوں نے خواب نو دیکھنے سکھائے
اسی کے ذروں کی چاہتوں نے
ہمارے بچپن کی نرم و نوخیز خواہشوں کو
جواں عزائم کی آنچ بخشی
اسی کے سینے کی دھڑکنوں نے
ہمارے دل کے عمیق گوشوں کو روشنی کی نئی کرن دی
ہم اس کی گودی کی راحتوں کو
یہاں سے ٹھکرا کے کیسے جاتے
ہم اس کی ممتا کا سوز کھو کر
سکون و آرام کیسے پاتے
اس اجنبی دیس کی فضاؤں میں دل کا آہنگ کیسے ملتا
ان اجنبی وادیوں کے دامن میں چاہ کے پھول کیسے کھلتے
یہ وارداتیں یہ نقش الفت اگر کہیں ہے تو بس یہاں ہیں
اساڑھ کے ہلکے ہلکے بادل
جھڑی وہ بھادوں کی دوپہر کی
وہ کویلوں کے گداز نغموں میں رس بدلتی ہوئی رتوں کا
وہ نیلگوں صبح کی فضائیں
وہ دل نشیں شام کے دھندلکے
ہمارے آموں کے باغ بانسوں کے جھنڈ دریاؤں کے کنارے
ہمارے سرسوں کے کھیت پیپل کی چھاؤں ذرات کے اشارے
ہمارا دامن پکڑ رہے تھے
یقیں سے جھولی کو بھر رہے تھے
وہ پوچھتے تھے تمہارے گھر ان مسرتوں کے سوا کہاں ہیں
ہمارے گیتوں کی مست تانیں
ہمارے میلوں کی رنگ رلیاں
ہمارے تہواروں کی ادائیں
ہمارے فنکاروں کی صدائیں
ہمارے رستوں میں آ گئی تھیں
وہ کہہ رہی تھیں یہاں کے ذرے بھی اس تمدن کے پاسباں ہیں
وہ تنگ گلیوں میں زندگی کی حقیقتیں پا برہنہ بچے
وہ اپنی معصوم انکھڑیوں میں حیات کی تلخیاں چھپائے
خراج انصاف مانگتے تھے
وہ اپنی میراث مانگتے تھے
ہزار تاریکیوں کے دامن میں پلتی یہ زندگی کی کلیاں
پکارتی تھیں کسی سحر آفریں مذاق عمل کی طالب
یہ تنگ و تاریک بستیاں ہیں یہ سب ادھوری کہانیاں ہیں
ہمیں نے جمنا کے ساحلوں کو حسیں عمارات سے سجایا
ہمیں نے پتھر کے سخت سینے کو نرم ایلورا کی دھڑکنیں دیں
ہمیں نے رنگینیاں نچوڑیں تو نقش اجنتا کے بن گئے تھے
جو حسن و جوش عمل سمویا تو لال قلعے سنور گئے تھے
ہمیں نے مرمر کی سرد سل کو
امر کیا تاج کی تڑپ دی
یہیں کی مٹی نے فکر غالبؔ کو عزم اقبالؔ کو نکھارا
دلوں کی ٹیگورؔ کی نواؤں نے بخشا وجدان کا شرارہ
ہمیں نے کالیؔ کی شاعری میں
سمویا شیراز اور ایراں کا لہجۂ جذب و کیف و مستی
ہمیں نے اس سرزمین گوتمؔ کو شعر کا بانکپن دیا تھا
ہمیں نے تہذیب ہند کو یہ مزاج گنگ و جمن دیا تھا
یہاں کے افکار و علم و آئیں ہماری عظمت کے رازداں ہیں
نہیں ہے اپنے وطن کی مٹی تو کون اپنا نگاہ باں ہے
نہیں ہیں گر یہ حسیں فضائیں تو کون اپنا مزاج داں ہے
نہیں ہے گر یہ ہماری منزل تو پھر بتاؤ تمہیں کہاں ہے
یہ کس کے سفاک ہاتھ نے توڑ ڈالا اس گھر کا ساز الفت
یہ کس نے مذہب کا نام لے کر مٹا دی معراج آدمیت
کہاں ہیں جوش و وفا و ہمت
کہاں ہے اجداد کی حمیت
ہیں کیوں لٹیروں میں مائیں بہنیں
یہ کون اس گھر کے پاسباں ہیں
کہاں ہو چارہ گرو بتاؤ کہاں اخوت کے کارواں ہیں
کہاں ہو اے رہبرو دکھاؤ بجھے بجھے راہ کے نشاں ہیں
ہم اپنے کوچوں میں اجنبی ہیں ہم اپنے ہی گھر میں میہماں ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.