میرے گیت تمہارے ہیں
اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی
موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی
مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت بھی
طوفانوں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی
آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھر دوں گا
مدھم لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھر دوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھر دوں گا
آج سے اے مزدور کسانو میرے گیت تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو یہ نغمے خاموش نہ ہوں گے
جب تک بے آرام ہو تم یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں گے
مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فن کار نہ مانیں
فکر و فن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن میری امیدیں آج سے تم کو ارپن ہیں
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں
تم سے قوت لے کر اب میں تم کو راہ دکھاؤں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی میں بربط پر گاؤں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا
- کتاب : Kulliyat-e-Sahir (Pg. 103)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.