میری رامائن ادھوری ہے ابھی
میری رامائن ادھوری ہے ابھی
میری سیتا
اور مجھ میں حائل دوری ہے ابھی
میری سیتا اداس ہے
رشتوں کا پھیلا بن باس ہے
پھرنا ہے مجھے ابھی
جنگل جنگل صحرا صحرا ساگر ساگر
میرا حمزہ وہی میرا لچھمن ہے ابھی
زمانہ تو عیار ہے
سو بھیس بدل لیتا ہے
سادھوؤں کے بہروپ میں ہیں پوشیدہ ابھی
نہ جانے راکشش کتنے
آج پھر
زمانے نے چھل لیا ہے مجھے
میری سیتا کو
حالات کے راون نے
ہر لیا ہے ابھی
دور بہت دور
میری نگاہوں سے اوجھل
ساحل سمندر کی ریت پر
وہ بے سدھ پڑی رو رہی ہے ابھی
تاہم
اپنی شکستہ حالی سے
اس نے ہار نہیں مانی ہے ابھی
وقت کے لنکیشور کے آگے
اس نے آتم سمرپن کیا نہیں ہے ابھی
ریت میں دھنسی اپنی ننھی سی کشتی کو
وہ تک رہی ہے غور سے
اپنے رام کے قدموں کی آہٹ
کی منتظر سماعت کو سمیٹے ہوئے
سراپا بگوش بنی
دکھ کی بھٹی میں تپ کے نکھر رہی ہے ابھی
ملن کی شبھ گھڑی کا اسے ابھی ہے یقین
اس کے خشک ہونٹوں پہ ہے میرا ہی نام
رام رام رام
صاحبو
حقیقت تو یہ ہے کہ راکشس باہر نہیں ہے کہیں
راکشس تو خود اپنے اندر
درون خانۂ دل میں روپوش ہے کہیں
میری سیتا
میری بھولی بھالی سیتا کو
انتظار اس سنہرے پل کا ہے
جب میرا غصہ شانت ہوگا
اور میرے اندر سے
مریادہ پرش رام اتپن ہوں گے کبھی نہ کبھی
تب راون اپنے آپ ہی پراست ہو جائے گا
تبھی رام جی اپنی سیتا کو
اپنے پہلو میں اٹھا کر لے جائیں گے
اپنے دل کے سنگھاسن پر بٹھائیں گے تبھی
تبھی دیپ جلیں گے
گھر آنگن میں اوپر نیچے چاروں اور
تبھی دن دسہرا ہوگا
تبھی رات دیوالی ہوگی
میری راماین ادھوری ہے ابھی
پھرنا ہے مجھے ابھی
جنگل جنگل صحرا صحرا ساگر ساگر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.