میری زندگی کے دو رخ
ایک رخ
ساز دروں سے جل نہ اٹھیں جسم و جاں کہیں
رگ رگ نہ میری پھونک دے قلب تپاں کہیں
گم صم ہوں اور ششدر و حیراں کچھ اس طرح
جیسے کہ کھو چکا ہوں میں روح رواں کہیں
اس ناؤ کی طرح ہوں میں موجوں کے رحم پر
لنگر ہو جس کے ٹوٹے کہیں بادباں کہیں
یا مست ناز سرو سا کوئی نہال سبز
آ جائے ضد میں برق کی جو ناگہاں کہیں
یا جس طرح بہار میں مرغ شکستہ پر
حسرت سے دیکھتا ہوں سوئے آسماں کہیں
مغلوب اس قدر ہوں میں احساس غم سے آج
کھو جائے سسکیوں میں نہ یہ داستاں کہیں
بیتے دنوں کے خواب ہیں آنکھوں کے سامنے
فردا کا ایک خوف ہے دل میں نہاں کہیں
نکلے تھے جب وطن سے ہم اپنے بہ حال زار
منزل کا تھا خیال نہ نام و نشاں کہیں
کچھ ایسی منتشر سی ہوئی دوستی کی بزم
پتے بکھیر دیتی ہے جیسے خزاں کہیں
زندہ ہے یار صحبتیں باقی مگر کہاں
دیوار کھنچ گئی ہے نئی درمیاں کہیں
فردا پہ کیا یقین ہو نالاں ہوں حال پر
ماضی کی سمت لے چلے عمر رواں کہیں
باد صبا کے شانوں پہ امواج نور پر
لے جاؤ مجھ کو دوستوں کے درمیاں کہیں
یا شمع میری یادوں کی گل کر دو ایک ایک
تاریک دل کا گوشہ نہ ہو ضو فشاں کہیں
روداد غم سناتے ہی یوں آئی ان کی یاد
میں ہوں کہیں خیال کہیں داستاں کہیں
اوجھل ہیں گو نگاہ سے دل سے کہیں ہیں دور
ذکر حبیب اب بھی ہے ورد زباں کہیں
دوسرا رخ
کیوں انقلاب دہر سے اب مضطرب ہے تو
دیکھا ہے ایک حال پہ دور زماں کہیں
آغوش انقلاب میں پلنا ہے ارتقا
مر جائیں گھٹ کے بدلیں نہ گر یہ جہاں کہیں
محشر بداماں لہجہ ہے دنیا کا ایک ایک
ماضی کے ڈھونڈھتا ہے مگر تو نشاں کہیں
طوفاں نے بڑھ کے قصر کو قیصر کے جا لیا
روتا ہے تو کہ میرا نہیں آشیاں کہیں
پیہم رواں ہے نت نئی منزل کی راہ میں
رکتا ہے زندگی کا بھلا کارواں کہیں
دکھ درد آتے دیکھ کے ہوتا ہے یہ گماں
ہو ضبط کا ہمارے نہ یہ امتحاں کہیں
آئی خزاں بہار بھی ہوگی قریب ہی
فطرت کا یہ نہ راز ہو غم میں نہاں کہیں
کب تک تو رحم کھائے گا خود اپنے حال پر
کب تک تری تلاش دل مہرباں کہیں
خوش کر نہ تو کسی کو قصیدے سنا سنا
جھکنے نہ پائے سر بہ در آستاں کہیں
فرصت کہاں کسے جو تیرا حال غم سنے
دنیاں کو اپنی کم ہے پریشانیاں کہیں
سینے کے اپنے گھاؤ کو ہنس ہنس کے تو چھپا
دنیا پہ ہونے پائے نہ ہرگز عیاں کہیں
غم کے ترانے چھوڑ کے خوشیوں کے گیت گا
مشکل کو سہل کرتے ہیں آہ و فغاں کہیں
پائے طلب نہ لنگ ہو اور عزم ہو جواں
مرد خدا پہ تنگ ہے ہندوستاں کہیں
گو صبر آزما ہے مسافت کی مشکلیں
حائل ہے راہ شوق میں سنگ گراں کہیں
چھوٹا چمن ہے ایک ہزاروں نظر میں ہیں
پھر ہوگا شاخ گل پہ نیا آشیاں کہیں
صحن چمن میں دھوم سے جائے گی پھر بہار
خندہ ہے گل طیور بھی ہے نغمہ خواں کہیں
لٹ کر حبیبؔ خوش ہے کہ تاجر ہے شوق کا
ہے فکر روزگار نہ سود و زیاں کہیں
- کتاب : نغمۂ زندگی (Pg. 86)
- Author : جے کرشن چودھری حبیب
- مطبع : جے کرشن چودھری حبیب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.