اک ندی کے تٹ پہ میں
جانے کب سے بیٹھا ہوں
جا چکا ہے دن لیکن
رات ابھی نہیں آئی
روشنی ہے بجھنے کو
پر اندھیرا غائب ہے
یعنی صاف بولوں تو
سانجھ کا دھندھلکا ہے
اور اس دھندھلکے میں
میں خموش بیٹھا ہوں
میں اداس بیٹھا ہوں
جانتا ہے کیا کوئی
میں یہاں کب آیا تھا
کب یہاں سے جاؤں گا
اور جو اداسی ہے
ساتھ لے کے آیا تھا
ساتھ لے بھی جاؤں گا
میں نے ایک پتھر جو
پانی پر چلایا تھا
ڈوبنے سے پہلے وہ
کتنی بار کودا تھا
میں مری اداسی پہ
روز ٹپے کھاتا ہوں
ڈوب ہی نہ پاتا ہوں
جانتا ہے کیا کوئی
نام اور پتہ میرا
یا کہ راستہ میرا
اور جو خموشی ہے
کب سے میری ساتھی ہے
کب تلک رہے گی یہ
ریت میں نے مٹھی میں
لے کے جو اڑا دی تھی
وہ ہوا کے کندھے پر
کتنی دیر بیٹھی تھی
میں مری خموشی کو
روز ہی اڑاتا ہوں
پھر سے خود پہ پاتا ہوں
اک ندی کے تٹ پہ میں
جانے کب سے بیٹھا ہوں
سانجھ کا دھندھلکا بھی
ساتھ چھوڑے جاتا ہے
ہر طرف سیاہی ہے
ہر طرف سناٹا ہے
یعنی صاف بولوں تو
رات یہ اندھیری ہے
اور میں اندھیرے میں
کیوں خموش بیٹھا ہوں
کیوں اداس بیٹھا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.