میرابائیؔ کی ایک تصویر
کرشن بھگوان کا ادنیٰ سا پجاری ہوں میں
مجھ کو گیتا سے ہے تعلیم ملی بھگتی کی
حق پرستوں سے ہے بھرپور عقیدت مجھ کو
مجھ کو عیسیٰ سے بھی ہے پیار محمد سے بھی
میرا کمرہ جو پرستش کے لیے ہے اس میں
نور برساتی ہیں ولیوں کی حسیں تصویریں
دیکھ کر ان کو کھل اٹھتا ہے مرے دل کا کنول
میرے ماضی کے ہیں خوابوں کی یہی تعبیریں
ان میں گوتم بھی ہے نانک بھی ہے اور رام بھی ہے
رام کرشن اور کبیر اور ہے نندہ نائی
الغرض ایسے ہی ان پہنچے ہوئے سنتوں میں
جلوہ گر کیف کے عالم میں ہے میرابائیؔ
نقش اس درجہ حسیں ہے یہ کہ بس کیا کہئے
حسن تصویر کا نظروں میں کھبا جاتا ہے
رنگ مستی ہے کچھ ایسا کہ بیاں کیا کیجے
دیکھتے ہی جسے دل وجد میں آ جاتا ہے
کتنی صدیوں کی شب و روز ریاضت کے طفیل
آدمی نور کی ہلکی سی جھلک پاتا ہے
رخ سے سلمائے حقیقت کے جب اٹھتی ہے نقاب
جام دل بادۂ مستی سے چھلک جاتا ہے
جان لے اصل حقیقت کو جو انساں اس کے
دل میں اک پریم کا طوفان امنڈ آتا ہے
دور جب شیشۂ دل سے ہو غبار پندار
ایک ہی نور ہر اک چیز میں وہ پاتا ہے
اپنے بھگتوں کو غم دل سے چھڑانے کے لئے
اپنے گیتوں سے فضا میں ابھی رس گھولے گی
ایسا لگتا ہے کہ کھل جائیں گی اس کی آنکھیں
ایسا لگتا ہے یہ تصویر ابھی بولے گی
جانفشانی سے بنائی ہے یہ جس نے تصویر
اس کا احسان زمانے پہ بڑا بھاری ہے
جس کی تخلیق سے دنیا کو میسر ہو سکوں
اسی فن کار کی دنیا میں پرستاری ہے
رنگ مستی ہے کچھ ایسا کہ بیاں کیا کیجے
دیکھتے ہی جسے دل وجد میں آ جاتا ہے
نقش اس درجہ حسیں ہے یہ کہ بس کیا کہئے
حسن تصویر کا نظروں میں کھبا جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.