منی بس کا سفر
کنوینس کچھ بھی جب نظر آیا نہ دائیں بائیں
سوچا کہ آج ہم بھی منی بس میں بیٹھ جائیں
جانا تھا لالو کھیت چڑھے تھے صدر سے ہم
رخصت ہوئے تھے سر بہ کفن اپنے گھر سے ہم
ہر راہ بس کی شہر خموشاں کی راہ تھی
ہر سیٹ بس کی آخری آرام گاہ تھی
رقاص خوش ادا کی طرح ہل رہی تھی بس
نا آشنا ٹرک سے گلے مل رہی تھی بس
فٹ پاتھ سے بھی ہاتھ ملاتی ہوئی چلی
ٹھمکہ قدم قدم پہ لگاتی ہوئی چلی
پرزہ ہر ایک مظہر چنگ و رباب تھا
اس بس کا اتفاق سے بھونپو خراب تھا
ڈھیلی کمانیوں میں ترنم بلا کا تھا
دیکھا اتر کے بس سے تو جھونکا ہوا کا تھا
گانے میں ٹھیک ٹھاک تھے چلنے میں ویک تھے
اس محفل سماع میں پہیے شریک تھے
نازک سماعتوں پہ ستم ڈھا رہی تھی بس
الٹے سروں میں کوئی غزل گا رہی تھی بس
ہو تو گئے تھے بس میں مسافر سب ایڈجسٹ
ڈر تھا کہ ہو نہ جائے کہیں ٹائروں میں برسٹ
بس میں سکڑ کے تھان سے چٹ ہو گئے تھے ہم
پرزے تھے اور مشین میں فٹ ہو گئے تھے ہم
جو کچھ بھی مل رہا تھا لیے جا رہے تھے ہم
دھکوں کی گیند کیچ کئے جا رہے تھے ہم
مجبور ہو گئے تھے جمیل و حسین لوگ
مرغا بنے ہوئے تھے معزز ترین لوگ
بس میں مثال شاخ ثمر جھک گئے تھے لوگ
خوددار و سر بلند تھے پر جھک گئے تھے لوگ
کچھ شوقیہ تھے کچھ بہ ارادہ جھکے ہوئے
عظمت میاں تھے سب سے زیادہ جھکے ہوئے
آزاد طبع واقف گیراج ہی نہ تھی
سگنل کی بتیوں کی تو محتاج ہی نہ تھی
اسٹاپ سے چلی تو رکی اک دکان میں
آخر اسے پناہ ملی سائبان میں
وہ لوگ چل دیے جو سر رہ گزر نہ تھے
''منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے''
- کتاب : No Problem (Pg. 93)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.