مرا خواب تھیں جو محبتیں
مری آرزوؤں کے دیوتا
میں عجیب تھی میں عجب رہی
مجھے دشت غم کو بھی چھاننے کی طلب رہی
مری بات میں کوئی رات آ کے ٹھہر گئی
مری ذات میں کوئی ذات آ کے گزر گئی
مجھے پھر بھی درد کو جانچنے کی طلب رہی
کئی رنج بھی ہیں ندامتوں سے ملے ہوئے
کئی شہر بھی ہیں عداوتوں سے بھرے ہوئے
کسی غم کے زور سے زرد ہے مرا شہر بھی
مجھے یاد ہے کسی شام غم کا وہ قہر بھی
یہ جو لوگ ہیں یہ بڑے عجیب سے لوگ ہیں
یہ ابھی تلک نہ سمجھ سکے
ہے کمال کیا
ہے محبتوں کا جنوب کیا
ہے شمال کیا
ہے عروج درد حبیب کیا
ہے زوال کیا
یہ سمجھ سکے ہی نہیں
ہے ہم کو ملال کیا
مجھے وصل یار کے فلسفے پہ یقین ہے
یہ جو ہجر ہے یہ کسی گمان سے کم نہیں
مری آنکھ دشت ہے
مدتوں سے جو نم نہیں
سبھی کچھ ہے بس یہاں تم نہیں
اے حبیب من
اے طبیب جاں
یہ جو چاشنی ہے حروف میں
تری دین ہے
یہ جو نقش ہیں مری آنکھ میں
ہے ترا کرم
جو مٹھاس ہے مری بات میں
تری بات ہے
مرا مجھ میں کچھ بھی نہیں رہا
تری ذات ہے
اے فقیہ شہر ترا بیان بھی جھوٹ ہے
مجھے عشق ہے تو پھر اس میں کوئی دلیل کیا
مجھے ضبط ملتا ہے روز گر
تو یہ درد درد سبیل کیا
مری آرزوؤں کے دیوتا
ذرا دیکھ لے
مری روح وجد کی کیفیت میں گھری ہوئی
میں جو سانس سانس مری ہوئی
ترے در پہ کب سے پڑی ہوئی
کبھی دیکھ لے
کبھی سار لے
یہ بتا مجھے
ہے قصور کیا
مرے دیوتا مرے بادشاہ
بڑے زخم ہیں
بڑے زخم ہیں مری روح پر
تجھے تیری شان کا واسطہ
مرے اندمال کے واسطے
ذرا مسکرا
ذرا مسکرا کہ سکوں ملے
ذرا دور مجھ سے فشار ہو
مرے چار سو ترا پیار ہو
مرے جسم و جاں کی خزاؤں میں بھی بہار ہو
تو پھر اس کے بعد وضاحتیں
یہ عداوتیں
مجھے کب ہیں راس سخاوتیں
وہی آفتیں
یہ مصیبتیں
مری زخم زخم عقیدتیں
مری درد درد ارادتیں
میں حقیقتوں سے کٹی ہوئی مرے چارہ گر
مجھے راس آئیں اذیتیں
مرا خواب تھیں جو محبتیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.