مریخ کی سیر
اس سال چھٹیوں کا بنا یہ پروگرام
جائیں گے دوست سیر کو مریخ کی تمام
دنیا سے دور اپنی خلاؤں میں جائیں گے
ہم دوسرے جہاں کی خبر لے کے آئیں گے
اونچی بہت اڑان ہے لمبا بڑا سفر
نکلے خلا کی سیر کو راکٹ میں بیٹھ کر
پھر ہم نے جا کے ڈال دی مریخ پر کمند
اقبال کے اقبال کو ہم نے کیا بلند
لمبے سفر کے بعد جو پہنچے مریخ پر
دیکھے قدم قدم پہ عجوبے مریخ پر
اہل مریخ نے کہا ہمیں خوش آمدید
سمجھو یوں ہم کو اپنی وفا سے لیا خرید
مخلوق اک عجیب ہی دیکھی مریخ پر
تھے بندروں سے جسم تو چیتوں سے ان کے سر
آتے نظر نہیں تھے بظاہر تو ان کے پر
سب اڑتے پھر رہے تھے خلا میں ادھر ادھر
رک رک کے اڑ رہی تھیں خلاؤں میں تتلیاں
بن آب تیرتی تھیں فضاؤں میں مچھلیاں
رنگین خوش نما تھے ستارے مریخ پر
نظروں کو لوٹتے تھے نظارے مریخ پر
سر سبز رنگ چاند تھا سر سبز رات تھی
ماحول پر سکوں تھا غموں سے نجات تھی
تھیں گہری کھائیاں کہیں اونچے پہاڑ تھے
چاندی کے سبزہ زار تھے سونے کے جھاڑ تھے
تھیں رونقیں کراچی کی موسم مری کا تھا
دل میں خیال بھی نہ کوئی بے گھری کا تھا
محسوس کم ہی ہوتی وہاں پر تھی بھوک پیاس
کھانے کو پھل لذیذ تھے چرنے کو میٹھی گھاس
لٹکی ہوئی شجر پہ تھیں پانی کی بوتلیں
حیران کن خلا میں معلق تھیں ہوٹلیں
موقع جو ہاتھ آیا تھا ہم نے نہ دیر کی
گھومے پھرے مریخ پہ جی بھر کے سیر کی
دو ماہ کی چھٹیاں گئیں دو دن میں ہی گزر
بدھو تمام لوٹ کے پھر آئے اپنے گھر
مریخ کا سفر تو بڑا لا جواب تھا
لگتا ہے جیسے دیکھا کوئی ہم نے خواب تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.