مسٹر دھوندھل
چھوٹے موٹے گول اور توندل
ایک میاں تھے مسٹر دھوندھل
پیٹ تھا ان کا جیسے مٹکا
چلتے تھے کھا کھا کر جھٹکا
اٹک اٹک کر چلتے تھے وہ
مٹک مٹک کر چلتے تھے وہ
قد سچ مچ فٹ بال تھا ان کا
کپا اک اک گال تھا ان کا
عمر تھی ان کی آٹھ برس کی
آٹھ نہیں تو نو کی دس کی
جب وہ دعوت میں کہیں جاتے
دس دس باقر خانیاں کھاتے
فیرینی دس بیس پیالے
بے گنتی زردے کے نوالے
اس پر بھی جب پیٹ نہ بھرتا
بھوکا مرتا کیا نہیں کرتا
گھر آ کر وہ شور مچاتے
ماں سے مانگ کے کھانا کھاتے
محنت سے گھبراتے تھے وہ
سارے دن بس کھاتے تھے وہ
پیدل چلنا چھوٹ گیا تھا
گھر سے نکلنا چھوٹ گیا تھا
وہ نکلے اور سب چلائے
توندل آئے توندل آئے
اک دن اپنے گھر سے نکلے
چل کر وہ بازار میں پہنچے
بازاری کتوں نے گھیرا
دھوندھل چلائے بہتیرا
بن نہ پڑا جب کچھ تو بھاگے
کتے پیچھے دھوندل آگے
کتے ان کو جان گئے تھے
وقت کو بھی پہچان گئے تھے
جب وہ گھر سے باہر آتے
کتے روز انہیں دوڑاتے
روز یہ ان پر آتی آفت
بنتی ان کی روز یہی گت
توند اس ورزش سے کچھ پٹکی
مٹکا تھی اب رہ گئی مٹکی
کتوں نے یہ خوب دوا دی
چھٹ گئی ان کے جسم کی بادی
اچھے خاصے ہو گئے دھوندھل
کوئی نہ کہتا اب انہیں توندل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.