مٹی سے ایک مکالمہ
ماں کہتی ہے
جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے
سب آباد گھروں کی مائیں
پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں
اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے
ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ
اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں
کتنی عمریں چور رہی تھی
اک اک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے
سب کچھ یاد ہے آج
کہ میں اک عمر نگل کر بیٹھا ہوں
عمر کی آخری سرحد کی بنجر مٹی
جب سے ماں کے ہونٹوں سے گرتے لفظوں میں کانپتی ہے
میری سانس تڑپ اٹھتی ہے
اس کے مٹتے نقش مرے اندر
کہرام سی اک تصویر بنے ہیں
زندگیوں کے کھوکھلے بن پر
آنسوؤں لپٹی ہنسی مرے ہونٹوں پہ لرزتی رہتی ہے
اچھی ماں
عمر کے چلتے سائے کی تذلیل میں
تیرے لہو کے رس کی لذت
تیرے غرور کی ساری شکلیں
ان رستوں میں مٹی مٹی کر آیا ہوں
پتھریلی سڑکوں پہ اپنے ہی قدموں سے
خود کو روند کے گزرا ہوں
میرے لہو کے شور میں تیری
کوئی بھی پہچان نہیں ہے
تیری اجلی شبیہ کچھ ایسے دھندلائی ہے
تجھ سے وصل کی آنکھ سے
بینائی زائل ہے
میں تیرے دردوں کا مارا
تیری ہی صورت میں بھی
اک جیون ہارا
- کتاب : Aakhrii Din Se pehle (Pg. 73)
- Author : Abrar Ahmed
- مطبع : Tahir Aslam Gora, Gora Publishers (1997)
- اشاعت : 1997
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.