مٹی تھی کس جگہ کی
بے فیض ساعتوں میں
منہ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے
اکھڑی ہوئی طنابوں
دن بھر کی سختیوں سے
اکتا کے سو گئے تھے
بارش تھی بے نہایت
مٹی سے اٹھ رہی تھی
خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے
گلیاں مکاں دریچے
اور بچپنے کے آنگن
اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میداں
اڑتے ہوئے پرندے
اک اجلے آسماں پر
دو نیم باز آنکھیں
بیداریوں کی زد پر
تا حد خاک اڑتے
بے سمت بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے
کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اترے
کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمیں پر
اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی
اڑتی پھری کہاں پر
اس خاک داں پہ کچھ بھی
دائم نہیں رہے گا
ہے پاؤں میں جو چکر
قائم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی
آواز کن رتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اڑ رہی تھیں
آنکھوں میں بھر گئی تھی
اک اور شب کے نیندیں
اور شہر بے اماں میں
پھر صبح ہو رہی تھی
- کتاب : Aakhrii Din Se pehle (Pg. 34)
- Author : Abrar Ahmed
- مطبع : Tahir Aslam Gora, Gora Publishers (1997)
- اشاعت : 1997
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.