تو نے کب یہ کہا
ساتھ چلتے ہوئے
میرے تسموں سے دل کو نہیں باندھنا
میرے قدموں سے قسمت نہیں ماپنی
میری آنکھوں سے خود کو نہیں دیکھنا
اس شکستہ جبیں کو نہیں چومنا
پھول دینے نہیں
تو نہیں جانتی
میں نے کتنی دفعہ
تیرے بھیجے خطوں کو مکمل پڑھا
کاغذوں پر تری بے بسی کے نشاں میں نے ازبر کیے
ایسے وعدوں پہ خود کو نچھاور کیا
جو ترے حق میں تھے
تجھ کو ہنستے سمے بھی دلاسے دئے
آ مری رازداں دفتر وصل میں دونوں باہم ملیں
آ کے یوں مجھ سے مل
جیسے یعقوب کو کوئی کرتا ملے
اس مضافاتی لڑکے کو اتنا بتا
کون خوابوں کے ریوڑ کو ہانکے بنا
تیرے رخسار حیرت سے دیکھا کرے
اور چھوئے بنا
کوئی کیسے رہے
دشت میں آب کو کیسے انکار ہو
گھاس اگنے لگی
پارکوں میں پڑی خالی بینچوں کے اوپر
جہاں ہم محبت کی ڈوری کو تھامے
کئی خواب بنتے فنا ہو گئے
سرخ پھولوں کی رنگت بدلتی رہی
تو نے قربت کی زنجیر کھینچی نہیں
زندگی تھی کہ پٹری پہ چلتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.