محبت
تمہیں جولائی کی انیسویں تپتی جھلستی دوپہر اب یاد کب ہوگی
کہ جس کی حدتیں کتنے مہینوں بعد تک
ہم نے بدن کے ہر دریچے پر لکھی محسوس کی تھیں
اور انہیں نظمیں سمجھ کر گنگنایا تھا
تمہارے جسم کی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ایک ایسا موڑ آیا تھا
جہاں اوہام الہامی نظر آتے ہیں
اور امکان ناکامی محبت ضبط آوازیں سمندر درد بن جاتے ہیں
سارے خواب پلکوں کی ہری شاخوں سے جھولے لینے لگتے ہیں
سمٹ آتے ہیں سارے ہجر آنکھوں میں
وہیں اس موڑ پر پہلی دفعہ میں نے یہ سمجھا
روح مادہ ہے
کہ اس کی اک کمیت ہے حجم ہے بوجھ رکھتی ہے
اور اس کا بھی بدن ہوتا ہے
جس میں ننھے ننھے آئینے یاقوت کے مانند بنتے اور بگڑتے ہیں
تمہیں کب یاد ہوگا
ٹوٹتے کمزور لمحوں کے یہ بندھن کس قدر مضبوط ہوتے ہیں
کہ اب میں ہر برس جولائی کی انیسویں تپتی جھلستی دوپہر میں
خواب جگنو اور ستارے اپنی آنکھوں پر رکھے محسوس کرتا ہوں
تمہیں چھوتا ہوں پلکوں سے
ہوا میں انگلیاں بھر کر
تمہارے کان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے بالوں کو
اک تمہید دیتا ہوں
نگاہ خواب آلودہ کے بوسوں سے
تمہارے جسم کی ساری صفوں پر لفظ رکھتا ہوں
تمہیں بھرتا ہوں بانہوں میں
تمہاری یاد رفتہ سے وہی لمحہ اٹھا کر وقت کو ساکت بناتا ہوں
تو پھر وہ موڑ آتا ہے
جہاں اوہام الہامی نظر آتے ہیں
اور اک نظم کی تخلیق ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.