Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محبت

MORE BYسعید وارثی

    وہ پھول ہے کیسے مان لوں میں

    کہ پھول کا رنگ ہے رمیدہ

    غلط ہے اس کو بہار کہنا

    بہار تو ہے خزاں گزیدہ

    وہ کہکشاں ہے میں کیسے کہہ دوں

    کہ کہکشاں تو رہین شب ہے

    میں مطمئن چاند سے نہیں ہوں

    کہ چاند کو بھی دوام کب ہے

    ہے روز روشن بھی تیرہ قسمت

    یہ راز وقت غروب جانا

    میں کیسے سورج سمجھ لوں اس کو

    نصیب سورج کا ڈوب جانا

    صبا سے اس کو مثال دے دوں

    تو یہ جسارت جواز چاہے

    صبا تو کلیوں کو زندگی دے

    چمن کے کانٹوں کو بھول جائے

    وہ یوں نہیں نغمہ حسیں بھی

    کہ نغمہ نغمہ نواز تک ہے

    وہ ساز ہوگا تو کیسے ہوگا

    کہ ساز ترکیب ساز تک ہے

    جو رونق بزم پر کشش تھی

    وہ صبح ہوتے دھواں دھواں ہے

    یقیں ہے وہ شمع بھی نہیں ہے

    کہ شمع اک شب کی داستاں ہے

    اگر کہوں ہے وہ سبز پتہ

    تو دھیان میں خشک ڈال آئے

    درخت کہنا فضول ہوگا

    رتوں کا مجھ کو خیال آئے

    کہوں اسے ہے وہ عرش قدسی

    تو بات پھر بھی بجا نہیں ہے

    زمین والوں کی دسترس میں

    فراز عرش علا نہیں ہے

    کہاں یہ قطرہ مثال دریا

    کہاں مری منزل طلب ہے

    اسے سمندر قرار دیتا

    مگر سمندر تو پر غضب ہے

    اسے میں بادل کا نام دیتا

    مگر یہ بادل ہے کیسا بادل

    تمام صحرا ترس رہا ہے

    مگر کہیں اور برسا بادل

    میں اس کو ٹھہراؤں راز پنہاں

    تو ذہن کی ہے یہ نارسائی

    ہزار فکر و نظر نے چاہا

    سمجھ میں پھر بھی نہ بات آئی

    اگر کہوں میں وہ آدمی ہے

    تو کم نگاہی کے زخم کھاؤں

    فرشتے آدم پہ معترض تھے

    اسے فرشتہ بھی کہہ نہ پاؤں

    کہوں میں انساں بلا تامل

    مگر ہے انسان کا تو سایہ

    دیار سدرہ کی منزلوں سے

    نہ کوئی انساں گزر کے آیا

    وہ ساز کردار بھی ہیں کمتر

    ہے ذکر جن کا کہانیوں میں

    کنول سے اس کی مثال کیسی

    کنول تو کھلتا ہے پانیوں میں

    کتاب کہہ کر سمجھنا چاہوں

    تو عقل یہ بات بھی نہ مانے

    حکایتوں سے دلیل لاؤں

    تو سوچوں قصے میں سب پرانے

    اگر کہوں ہے وہ لوح و کرسی

    تو بات پھر بھی نہیں ہے جچتی

    میں جس سے اس کو مثال دیتا

    کوئی تو ایسی مثال بچتی

    کبھی کبھی یوں بھی سوچتا ہوں

    خدا نہیں پر خدائی اس کی

    کبھی کبھی یوں بھی سوچتا ہوں

    یہ حد نہیں انتہائی اس کی

    نہ اس کا ہم سر نہ اس کا سایہ

    وہ نور والا وہ تاج والا

    ہے نبض دوراں پہ ہاتھ اس کا

    وہ کل کا مالک وہ آج والا

    وہ کون ہے اس کی انتہا کیا

    خدا ہی سمجھے خدا ہی جانے

    غریب و خستہ مگر اسی کو

    دوا بھی سمجھے دعا ہی جانے

    مراد جس کی ہے جو بھی اپنی

    حضور رب جلیل مانگے

    سعیدؔ لیکن اسی کو چاہوں

    جسے دعائے خلیل مانگے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے