مفاہمت
جب اس کا بوسہ لیتا تھا سگریٹ کی بو نتھنوں میں گھس جاتی تھی
میں تمباکو نوشی کو اک عیب سمجھتا آیا ہوں
لیکن اب میں عادی ہوں، یہ میری ذات کا حصہ ہے
وہ بھی میرے دانتوں کی بد رنگی سے مانوس ہے، ان کی عادی ہے
جب ہم دونوں ملتے ہیں، لفظوں سے بیگانہ سے ہو جاتے ہیں
کمرے میں کچھ سانسیں اور پسینے کی بو، تنہائی رہ جاتی ہے!
ہم دونوں شاید مردہ ہیں احساس کا چشمہ سوکھا ہے
یا پھر شاید ایسا ہے یہ افسانہ بوسیدہ ہے
درد زہ سے زیست یونہی ہلکان تڑپتی رہتی ہے
نئے مسیحا آتے ہیں اور سولی پر چڑھ جاتے ہیں
اک مٹیالا انسان صفوں کو چیر کے آگے بڑھتا ہے اور منبر سے چلاتا ہے
ہم مصلوب کے وارث ہیں یہ خون ہمارا ورثہ ہے
اور وہ سب آدرش، وہ سب جو وجہ ملامت ٹھہرا تھا
اس مٹیالے شخص کے گہرے معدے میں کھپ جاتا ہے
پھر تفسیروں اور تاویلوں کی شکل میں باہر آتا ہے
یہ تاویلیں مجبوروں کا اک موہوم سہارا ہیں
یا شاید سب کا سہارا ہیں
یونہی میں آدرش انسان کا جویا ہوں
سب ہی سپنے دیکھتے ہیں خوابوں میں ہوا میں اڑتے ہیں
پھر اک منزل آتی ہے جب پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں
شاخوں کی طرح ٹوٹتے ہیں
اک روح جان و دل کو جو دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے پا لیتے ہیں
پھر اس سے نفرت کرتے ہیں گو پھر بھی محبت کرتے ہیں!
میں اس سے نفرت کرتا ہوں وہ مجھ کو نیچ سمجھتی ہے
لیکن جب ہم ملتے ہیں تنہائی میں تاریکی میں
دونوں ایسے ہو جاتے ہیں جیسے آغشتہ مٹی ہیں
نفرت ضم ہو جاتی ہے اک سناٹا رہ جاتا ہے
سناٹا تخلیق زمیں کے بعد جو ہر سو طاری تھا
ہم دونوں ٹوٹتے رہتے ہیں جیسے ہم کچی شاخیں ہیں
خوابوں کا ذکر نہیں کرتے دونوں نے کبھی جو دیکھتے تھے
خوشیوں کا ذکر نہیں کرتے جو کب کی سپرد خاک ہوئیں
بس دونوں ٹوٹتے رہتے ہیں
میں بادہ نوشی پر مائل ہوں، وہ سگریٹ پیتی رہتی ہے
اک سناٹے کی چادر میں ہم دونوں لپٹے جاتے ہیں
ہم دونوں ٹوٹتے رہتے ہیں جیسے ہم کچی شاخیں ہیں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.