محقق
یہ جو اک حضرت چلے آتے ہیں گورستان سے
یہ نہ سمجھیں آپ ہیں بے زار اپنی جان سے
آپ کو یونہی ہے آثار قدیمہ سے لگاؤ
جس طرح چونا ڈلی، کتھے کو نسبت پان سے
آپ کو قبروں سے الفت عشق ویرانے سے ہے
آپ گھبراتے ہیں جیتے جاگتے انسان سے
کوئی کتنا ہی بڑا ہو فلسفی شاعر ادیب
عمر بھر اس سے رہا کرتے ہیں آپ انجان سے
ہاں مگر جیسے ہی پا جاتا ہے بے چارہ وفات
آپ اس کو چاہنے لگتے ہیں جی سے جان سے
سونگھتے ہیں دیر تک مرحوم کی خاک لحد
پھر یہ فرماتے ہیں اٹھ کر عالمانہ شان سے
طول و عرض قبر سے یہ صاف چلتا ہے پتا
گورکن آئے تھے اطراف بلوچستان سے
یہ تھا اک رخ صاحب تحقیق کی تصویر کا
دوسرا رخ بھی بیاں کرتا ہوں، سنیے دھیان سے
ہیں بزعم خود محقق آپ ہندوستان کے
آپ نے نقطے گنے ہیں میرؔ کے دیوان کے
کاٹتے ہیں سوت کو تحقیق کے اتنا مہین
آپ کے آگے جولاہے مات ہیں ایران کے
زیر تحقیق آپ کے رہتے ہیں یہ سب مسئلے
کس قدر چوہے پلے تھے گھر میں مومنؔ خان کے
پانچ بج کر پانچ پر یا پانچ بج کر سات پر
داغؔ نے توڑا تھا دم زانو پہ منی جان کے
رندؔ نے اک بے وفا کے عشق میں کھائی تھی جو
وہ چھری کے زخم تھے یا گھاؤ تھے کرپان کے
دھن ہے یہ ثابت کریں، دلی تھا ملٹنؔ کا وطن
اور سوداؔ کے چچا بوچر تھے انگلستان کے
الغرض رہتی ہے روز و شب یہی بس ایک فکر
کوئی گلدستہ اتاریں طاق سے نسیان کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.