مجسمہ
میں ایک پتھر
میں ایک بے جان سرد پتھر
جمود بے گانگی کا مظہر
ازل سے حد نظر کو تکتی ہوئی نگاہیں
خلا میں لٹکی ہوئی یہ باہیں
زمیں مجھے ساتھ لے کے دشوار منزلیں لاکھوں گھوم آئی
کروڑوں راہوں کو چوم آئی
فلک کے ساحر نے کتنے افسون مجھ پہ پھونکے
مرے پس و پیش ٹمٹماتے دیے جلائے
دھوئیں کے گہرے حصار باندھے
خدائے موسم نے حربہ ہائے بہار سے مجھ کو آزمایا
خزاں کی سفاک انگلیوں کا ہدف بنایا
مگر مری بے حسی نے ہر ایک حملہ آور کا سر جھکایا
اسی گزر گاہ پر ہوں استادہ اور شاید یہیں رہوں گا
جہاں سے گزرے دھڑکتے لمحوں کے کارواں
دھیمے سر میں گاتے
حیات ناپائیدار کے مرثیے سناتے
مرے بدن کی عمیق سردی کو سرد سے سرد تر بناتے
میں کتنی صدیوں سے سوچتا ہوں
کہ کوئی جنبش
ذرا سی لرزش
اگر مری منجمد رگوں میں خودی کی دھیمی سی آنچ بھر دے
یہ آنچ لہرا کے کیا نہ کر دے!
- کتاب : Sarhane Ka Charagh (Pg. 43)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.