مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے
مجھے خبر ہے
یہ آبنوسی چٹان جو دوب کے سبز تختے پہ آ گری ہے
نئی سبک نرم پتیوں کا سنگھار پی کر
سنہرے لمحوں کی سانس میں پھانس بن کر اٹک گئی ہے
مجھے یقیں ہے
کہ موسموں کے طلسم یہ تیرگی اڑا کر
اسی سلگتی چٹان پر دوب کی سبز زلفیں بکھیر دیں گے
مجھے یقیں ہے
مرے کٹے بازوؤں کی طاقت مری رگوں سے نہیں گئی ہے
مرے لہو کے یہ سرخ دھارے نئی حکایت کے پیش رو ہیں
نئی امنگوں نئے اجالوں نئے شفق زار کے امیں ہیں
مجھے خبر ہے
کہ غول چڑیوں کے لشکر ابرہہ کی اب کچھ خبر نہ لیں گے
ہماری آنکھوں میں روشنی ہے مگر دلوں میں سیاہیاں ہیں
اداسیوں کے گھنے دھویں میں چھپی ہوئی کامرانیاں ہیں
مجھے یقیں ہے
کہ اس فضا میں فراز صحرائے بے اماں ہیں
ہزاروں معصوم ایڑیاں رگڑ چکے ہیں رگڑ رہے ہیں
ابل پڑے گا ضرور کوئی حیات افروز آب شیریں
صداقتوں کے بہار زاروں کو آخرش تازگی ملے گی
مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے
- کتاب : doob (Pg. 95)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.