مجھے شرمندہ رکھتے ہیں
یہ ہر شب سوچ کر سوتا ہوں آنے والی صبحوں میں
گلوں سے پتیوں سے اوس کی بوندیں چرانی ہیں
شہہ آکاش کی نظریں نما کرنوں سے پہلے جاگ جانا ہے
صبائے عنبریں کے لمس کو محسوس کرنا ہے
لباس سبز میں ملبوس الھڑ پتیوں کی باتیں سننی ہیں
حسیں دوشیزہ کی مسکان سی کلیوں سے دو اک بات کر لوں گا
مگر کچھ کر نہیں پاتا کہ راحت روکے رکھتی ہے
کوئی افسانہ پڑھنا ہو کسی کی شاعری پہ بات کرنی ہو
کسی تخلیق سے پہلے خیال و فکر کو آزاد رکھنا ہو
کسی سارق کسی شاطر کسی کم فہم سے سچائی کہنی ہو
بڑی معصوم شکلوں میں چھپے عیار کو مکار کو شیشہ دکھانا ہو
فقیہ وقت امیر شہر کا قزاق سے ملعون سے رشتہ بتانا ہو
مگر یہ کر نہیں سکتا مصلحت خاموش رکھتی ہے
حریم مے کدے میں خانقاہوں مٹھ مدرسوں میں
برہمن شیخ سے پیر مغاں سے ساقیوں سے اور واعظ سے
یہ اکثر سوچتا ہوں جا کے کہہ دوں میں
ریا و کبر تہی اخلاص اور بد اطواری سے تیرے
جہاں میں عشق اخوت علم اور اخلاق مرتے ہیں
مگر میں کہہ نہیں سکتا عقیدت باز رکھتی ہے
تعصب خود پسندی بغض سے کبر و حسد سے
بساط ذہن و دل کو چاہتا ہوں پاک کر لوں
زر و املاک کی خواہش سے اپنے آپ کو آزاد کر لوں
کہ جب جب سعی کرتا ہوں ہوس انکار کرتی ہے
مگر ایقان ہے میرا ہمارے عہد کے بچے
مرے کذب و ریا کو مکر کو اور بے ایمانی کو
نفاق و بد قماشی کو مرے ظاہر کو باطن کو
ہویدا کر کے چھوڑیں گے علی الاعلان کہہ دیں گے
کہ میرے باپ ایسے تھے مرے استاذ ایسے تھے
سو ان کی بات سے اعمال سے شرمندہ ہوں میں بھی
یہ کہنے سے انہیں عزت نہ روکے گی
نہ ان کو خوف روکے گا
انہیں کچھ بھی نہ روکے گا
چلن بدلا ہوا ہوگا
ہماری ساری عزت ساری ذلت دوسروں کے حق کی پامالی
کتاب حق کے پنوں پر بہت واضح لکھی ہوں گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.