مجھے شرمندگی محسوس نہیں ہوتی
جو صدیاں بچھڑ چکی ہیں
میں ان میں زندہ رہتی ہوں
اور مجھے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی
سڑکوں پر تانگے کی ٹاپوں کی صدا اب بھی سنتی ہوں
جیسے محو سفر ہوں
اور ہوا میرے کانوں میں کچھ راز کہتی ہے
پھر کسی گاڑی کے ہارن کی صدا پر
چونک جاتی ہوں
میں جنگلوں کو تاراج کر کے سڑکیں بنتے دیکھتی ہوں
اور بے جان بدن لیے
جنگلوں کے نشان ڈھونڈھتی چلی جاتی ہوں
یہ راتوں رات کنکریٹ سے بنتے ہوئے دیو ہیکل پل
سڑکوں کو کشادہ کرنے کی خواہش میں
تنگ ہوتا ہوا عرصۂ حیات
ترقی کی آڑ میں
روح کو گھائل کرنے والے سودے
قطرہ قطرہ زندگی پینے والے
بے بسی سے دہائی دیتے ہوئے انگنت لوگ
جن کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو روندتے ہوئے
بڑے بڑے بلڈوزر
اور اب تو گٹر کی طرح
ابلے پڑے ٹریفک کے اس تعفن زدہ ہجوم میں
کہیں پٹری کی سانسیں بھی اکھڑ رہی ہیں
ریل گاڑی کا انجن جانے کہاں رہ گیا ہے
چپ چاپ بچھڑی صدیوں میں پناہ لیتے ہوئے
مجھے شرمندگی محسوس نہیں ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.