گرجتی
ٹوٹ کر گرتی گھٹائیں
آسمانوں سے مسلسل سنگ باری
نوحہ گر دیوار و در
زخمی چھتیں
شیشوں پہ پانی قطرہ قطرہ پھیلتا بڑھتا
پھسلتی ٹوٹتی ننھی لکیریں
جو تھکے ہاتھوں کی ریکھاؤں کی صورت
نت نرالے روپ بھرتی ہیں
خلا دل کا ذرا سی دیر بھی خالی نہیں ہوتا
اسے جو بھی میسر ہو وہ بھر لیتا ہے سینے میں
تمنا پھر تمنا ہے
وہ چاہے موت ہی کی ہو
وہی دکھتی رگوں میں خون کے طوفاں تھپیڑے
پھر وہی شیشوں پہ بڑھتے پھیلتے جالے
پروں کی آخری بے جان سی
اک پھڑپھڑاہٹ کے سوا کیا ہیں
یہ فریاد و فغاں نالے
مجھے معلوم ہے جب وقت بہتا ہے
تو پھر موجوں میں کب وہ فرق کرتا ہے
وہ چاہے پر سکوں ہوں
یا کسی ساحل سے اپنے سر کو ٹکرائیں
سسکتی رینگتی گزریں
تڑپ کر ریت میں خود جذب ہو جائیں
وہ چاہیں کچھ کریں
کیا فرق پڑتا ہے
پھسلتی ٹوٹتی ننھی لکیریں
درازوں سے نکل کر فرش تک آنے لگیں لیکن
وہ کتنی دور تک یوں رینگ سکتی ہیں
دلاسے ریشمی پیغام خواب آلودہ تمنائیں
بھلا اس سنگ باری کی سپر کیسے بنیں گی
ہزاروں کائناتیں ٹوٹتی بنتی ہیں ہر لحظہ
تناور پیڑ گرتے ہیں
چٹانیں ریزہ ریزہ ہو کے نس نس میں کھٹکتی ہیں
دریچے پے بہ پے برسات کے حملوں سے اندھے ہیں
فضا گونگی ہے بہری ہے
چلو یہ زندگی اور موت دونوں آج سے میرے نہیں ہیں
مری آنکھوں کی بینائی
زباں کی تاب گویائی
سماعت لمس سب کچھ آج سے میرے نہیں ہیں
چلو میں بھی تماشائی ہوں خود اپنے جہنم کا
مری دنیا تماشا ہے
میں اپنے سامنے خود کو تڑپتا سر پٹکتا دیکھ سکتا ہوں
اور ایسا مطمئن ہوں آج جیسے یہ جنم مجھ کو
ابھی کچھ دیر پہلے ہی ملا ہے
اور کسی انجانی دنیا سے
برستے بادلوں کے ساتھ آیا ہوں
- کتاب : Nai Nazm ka safar (Pg. 177)
- Author : Khalilur Rahman Azmi
- مطبع : NCPUL, New Delhi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.