Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منافق شاعر

پریم لال شفا دہلوی

منافق شاعر

پریم لال شفا دہلوی

MORE BYپریم لال شفا دہلوی

    میں منافق ہوں ہر اک کا دوست بن جاتا ہوں میں

    دوست بن کر دوستوں میں پھوٹ ڈلواتا ہوں میں

    انتہا کی چڑ ہے مجھ کو دو دلوں کے قرب سے

    دیکھتا ہوں جب یہ فوراً جال پھیلاتا ہوں میں

    میں برائی رام کی کرتا ہوں جا کر شام سے

    شام نے جو کچھ کہا وہ رام تک لاتا ہوں میں

    پیٹھ پیچھے سب کو دیتا ہوں مغلظ گالیاں

    سامنے لیکن ادب سے سر کے بل جاتا ہوں میں

    حلقۂ اہل سخن میں جو مری توقیر ہے

    چھن نہ جائے ہر نئے شاعر سے گھبراتا ہوں میں

    مجھ کو اپنی شاعری پر کس طرح ہو اعتماد

    خود تو کم کہتا ہوں اوروں سے کہلواتا ہوں میں

    داد دینے کے لئے رکھتا ہوں کچھ احباب ساتھ

    شعر ان کے واسطے بھی مانگ کر لاتا ہوں میں

    بزم میں پڑھتا ہوں میں نتھنے پھلا کر چیخ کر

    اور اس سے پیشتر تقریر فرماتا ہوں میں

    یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی شعر خود کہتا نہیں

    یہ خبر ہر ایک کے بارے میں پھیلاتا ہوں میں

    اور کوئی شعر کہہ لیتا ہے اچھا بھی اگر

    کل کا لونڈا کہہ کے خاطر میں نہیں لاتا ہوں میں

    خود تو نا موزوں بھی کہہ لیتا ہوں موزوں بھی مگر

    دوسرے کے شعر پر تنقید فرماتا ہوں میں

    شاعری سے واسطہ مجھ کو نہ اردو سے غرض

    صرف شہرت کے لئے ان سے الجھ جاتا ہوں میں

    کچھ بزرگوں سے مجھے بھی قرب حاصل تھا کبھی

    نام ہو ان سے مرا یوں ان کے گن گاتا ہوں میں

    ذکر کرتا ہوں پرانی صحبتوں کا بار بار

    اور دور حال کو ماضی سے ٹھکراتا ہوں میں

    باوجود اس کے اگر ہوتی نہیں شہرت نصیب

    گالیاں دیتا ہوں سب کو بوکھلا جاتا ہوں میں

    جس سے میں واقف ہوں وہ شہرت میں آگے بڑھ گیا

    دیکھ کر اس کو بہت کڑھتا ہوں بل کھاتا ہوں میں

    جانتا ہی کون تھا مشہور میں نے کر دیا

    بس یہی کہہ کہہ کے اپنے دل کو سمجھتا ہوں میں

    علم و فن کی چند باتیں جو مجھے معلوم ہیں

    داد پانے کے لئے ہر بار دہراتا ہوں میں

    داد دینی ہو تو یوں دیتا ہوں اک اک لفظ پر

    لفظ پورا بھی نہیں ہوتا پھڑک جاتا ہوں میں

    کچھ نہ تھے اشعار منہ دیکھے کی دی تھی میں نے داد

    وقت غیبت داد کی تردید فرماتا ہوں میں

    جب کسی بزم سخن میں شعر پڑھتا ہے کوئی

    اک طرف بیٹھا ہوا تصحیح فرماتا ہوں میں

    ساتھ والوں پر یوں کرتا ہوں فضیلت آشکار

    ہو نہ ہو ہر شعر میں کچھ عیب گنواتا ہوں میں

    یا کبھی پھر داد دیتا ہوں بہ آواز دہل

    ساتھ والوں کی طرف پھر آنکھ مچکاتا ہوں میں

    سامنے جب تک رہوں میں ہوں غلاموں کا غلام

    آسماں سے ورنہ تارے توڑ کر لاتا ہوں میں

    جو نہیں لاتے ہیں خاطر میں خوشامد کو مری

    وہ جھڑک دیتے ہیں مجھ کو ان سے گھبراتا ہوں میں

    یا سمجھ جاتے ہیں جو ان میرے ہتھکنڈوں کا راز

    سامنے آتے ہوئے ان کے بھی کتراتا ہوں میں

    کمتری کا ہے شفاؔ احساس ان سب کا سبب

    دشمنی اوروں کے دل میں تو نہیں پاتا ہوں میں

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے