بچپن میں جو نظم پڑھی تھی میں نے ایک رسالے میں
عنواں اس کا بسا ہوا ہے اب تک یاد کے جالے میں
منی سے پوچھا تھا کسی نے منی تیرے دانت کہاں ہیں
اس کی بھولی بھالی باتیں دیکھو بچو درج یہاں ہیں
بے دانتوں کا منہ منی نے تھوڑا سا پھر کھولا تھا
آنسو بھر کے آنکھوں میں پھر دکھیاری نے بولا تھا
دانت جو میں نے سات برس میں دودھ پلا کر پالے تھے
ان کو لے گئے چوہے جو سب لمبی مونچھوں والے تھے
پت جھڑ کی یہ رت تھی لیکن چند دنوں اور راتوں کی
اگ آئی تھی ایک لڑی پھر موتی جیسے دانتوں کی
جب نانی دادی کو دیکھا تو ہم پر یہ راز کھلا
ہوتا ہے اک بار ہی بچو جو کچھ اس کے ساتھ ہوا
سات برس کے دانت گریں تو بے شک وہ اگ جاتے ہیں
لیکن ساٹھ برس کے ہوں تو لوٹ کے پھر کب آتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.