ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی رنجشوں کا
ملال کس کو
زمین کرتی ہے بین
آنسو فلک بہاتا ہے چپکے چپکے
فضا میں سسکی سی تیرتی ہے
ہیں سر بہ زانوں تمام منظر
کہیں چھنی ہے کسی کی گڑیا
کہیں پھٹی ہیں نئی کتابیں
کسی کی شہ رگ پہ کوئی جھپٹا
کسی کی گلیوں میں خون بکھرا
سنا ہے ہم نے
کہ اس شجاعت پہ تمغہ ملے گا اس کو
بڑی نفاست سے اس نے چھانٹے ہیں اپنے ریوڑ
مویشی سارے بٹے ہوئے ہیں
یہ رنگ و ذات و نسل ان کے بنے طویلے
سب اپنی خوشیوں غموں کو بانٹیں گے اپنی حد میں
کہ بھیڑ بکری سے مل نہ پائے
نہ گائے بھینسوں میں ہوں کلیلیں
سنا ہے اس کے نظام ملکی پہ سب ہیں نازاں
اسے ہی بخشیں گے پھر سے وہ منصب ہزاری
ہمارے جیسے عجیب لوگوں کی آنکھوں میں
کیوں ہے اتنا پانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.