وہ چکا چوند وہ شہر کے جلوے
وہ تماشے وہ کرتب اجالوں کے
ہو رہے محو ہم بسکہ سائے تھے
ہر طرف شعبدے بے کراں سے تھے
مبتلا جن میں ہم جسم و جاں سے تھے
نہ رہا یاد آئے کہاں سے تھے
نظر اک دین تھی خود نظاروں کی
ذات اپنی عبارت انہیں سے تھی
رہن دریا تھی گرداب کی ہستی
انس کے رابطوں کے امیں تھے ہم
اک فضا تھی جہاں ہر کہیں تھے ہم
رابطوں کے سوا کچھ نہیں تھے ہم
کھیل تھا اک چراغ تمنا کا
جس کی لو سے تھی سب روشنی برپا
وقت کا تیل نظروں سے اوجھل تھا
یہ گذشتہ بہاروں کے گل بوٹے
چمن آرزو کے جگر گوشے
ہمیں گھیرے کھڑے راستے روکے
لئے آنکھوں میں رنج و محن اپنے
کئے جائیں گے کب تک جتن اپنے
ہمیں جانے بھی دیں اب وطن اپنے
- کتاب : siip (Magzin) (Pg. 159)
- Author : Nasiim Durraani
- مطبع : Fikr-e-Nau ( 39 (Quarterly) )
- اشاعت : 39 (Quarterly)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.