مردہ خانہ
دنیا کی الا بلا ٹھسی پڑی ہے مجھ میں
ہاں کچھ کام کی چیزیں بھی ہیں اس کباڑ خانے میں
الہامی کتابوں سے لے کر فلسفہ ادب اور شاعری تک کی
لائبریریاں بھری پڑی ہیں دماغ میں
آنکھوں میں اتر کر دیکھیں تو حسن دو عالم پائیں گے جلوہ افروز
پورے پورے نگار خانے میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے
کانوں میں بیٹھوؤں سے لے کر کوپ لینڈ کی سمفنیاں
اور تان سین کی بندشوں سے روشن آرا بیگم کی گائیکی تک محفوظ ہے آج بھی
لیکن گند تو مچا رکھا ہے میرے جسم نے
اور اس کے اندر دھڑکتے دل نے
گندگی کا ڈپو ہے میرا یہ جسم
بلکہ کارخانہ ہے گندگی کا
اچھی سے اچھی چیز ڈالیں آپ اس میں
بول و براز بنا کر رکھ دیتا ہے اسے
ڈال کر دیکھیں ہاں ہاں یہ پھل ڈالیں یہ مٹھائی
یہ تکے اور کباب ڈالیں اس میں
اور پھر ناک پر رومال رکھ کر دیکھیں کہ بنتا کیا ہے ان کا
خیر جہاں کارخانے ہوں وہاں گندگی تو ہوتی ہے لازماً
گندگی نہ ہو تو آلودگی سہی
عید قربان پر شہر کا چکر تو لگیا ہی ہوگا آپ نے
عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے
جو کچھ سڑکوں اور گلیوں میں نظر آتا ہے اوجھڑیوں اور آنتوں سے ابلتا ہوا
وہی کچھ ہے میرے اندر بھی
یہ تو میری کھال کا کمال ہے جو آپ نے پاس بٹھا رکھا ہے مجھے
اور اگر آپ میں جھانکنے کی ہمت ہو میرے دل میں
تو شاید ابھی اٹھا دیں اپنے پاس سے مجھے
کردہ گناہوں کی نہیں ناکردہ گناہوں کی بات کر رہا ہوں میں
خواہشوں اور حسرتوں کے جنازے پڑے ہیں
میرے دل میں قطار اندر قطار
میں نے تشبیہ دی تھی کباڑ خانے سے اپنے آپ کو
اصل میں تو ایک بہت بڑا مردہ خانہ ہوں میں
فسادات میں قتل عام دیکھا ہو شاید آپ نے
زلزلے میں مارے جانے والوں کی لاشیں نکالتے تو دیکھا ہوگا لوگوں کو
یا پھر ٹیلی ویژن پر بوسنیا اور کوسوو میں اجتماعی قبروں کی کھدائی کے مناظر
جب لواحقین کوشش کر رہے ہوتے ہیں لاشوں کو پہچاننے کی
اور ناک پھٹ رہے ہوتے ہیں ان کے سڑاند سے
جلد از جلد دوبارہ دفنا دی جاتی ہیں یہ لاشیں
لیکن میرے دل میں خواہشوں اور حسرتوں کی لاشیں گل سڑ گئی ہیں پڑے پڑے
اور میں پھر بھی دفن نہیں کرتا انہیں
دفن کرنا چاہتا ہی نہیں
اور چاہوں بھی تو کہاں کروں دفن انہیں
دماغ میں
دماغ میں کلبلاتا حافظہ کہاں مہلت دیتا ہے اس کی
دل ہی تو ہے جس میں دفنا سکتا ہوں انہیں
انہی مردہ خواہشوں اور حسرتوں کو دیکھ دیکھ کر تو جیتا ہوں میں
یہ تو دفن ہوں گی میرے ساتھ ہی
اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں بنائی جاتی ہیں بڑی بڑی قبریں
بادشاہ لوگ تو مرنے سے پہلے ہی بنوا لیا کرتے تھے اپنے مقبرے اور احرام
مجھے گھن آتی تھی بڑی بڑی قبروں سے
میں کہا کرتا تھا دیکھو ان مال زادوں کو
زندگی میں بھی گھیرے رکھتے تھے ضرورت سے زیادہ زمین
اور مر کر بھی اتنی جگہ گھیر لیتے ہیں کہ خدا کی زندہ مخلوق کو میسر نہیں سر چھپانے کو
مر کر بھی نہیں مٹتی زمین کی حرص ان کی
مگر اب سوچتا ہوں شاید انہیں واقعی ضرورت ہو بڑی قبروں کی
شاید ان کے اندر پڑے ہوں مجھ سے بھی زیادہ جنازے
خواہشوں اور حسرتوں کے
شاید ان کی اوجھڑیوں اور آنتوں میں غلاظت ہو مجھ سے بھی زیادہ
ویسے کہیں میں بھی تو جواز نہیں ڈھونڈھ رہا اپنے لیے کشادہ قبر کا
- کتاب : din kaa phool (Pg. 110)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.