Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردہ خانہ

محمد حنیف رامے

مردہ خانہ

محمد حنیف رامے

MORE BYمحمد حنیف رامے

    دنیا کی الا بلا ٹھسی پڑی ہے مجھ میں

    ہاں کچھ کام کی چیزیں بھی ہیں اس کباڑ خانے میں

    الہامی کتابوں سے لے کر فلسفہ ادب اور شاعری تک کی

    لائبریریاں بھری پڑی ہیں دماغ میں

    آنکھوں میں اتر کر دیکھیں تو حسن دو عالم پائیں گے جلوہ افروز

    پورے پورے نگار خانے میرے بھی صنم خانے تیرے بھی صنم خانے

    کانوں میں بیٹھوؤں سے لے کر کوپ لینڈ کی سمفنیاں

    اور تان سین کی بندشوں سے روشن آرا بیگم کی گائیکی تک محفوظ ہے آج بھی

    لیکن گند تو مچا رکھا ہے میرے جسم نے

    اور اس کے اندر دھڑکتے دل نے

    گندگی کا ڈپو ہے میرا یہ جسم

    بلکہ کارخانہ ہے گندگی کا

    اچھی سے اچھی چیز ڈالیں آپ اس میں

    بول و براز بنا کر رکھ دیتا ہے اسے

    ڈال کر دیکھیں ہاں ہاں یہ پھل ڈالیں یہ مٹھائی

    یہ تکے اور کباب ڈالیں اس میں

    اور پھر ناک پر رومال رکھ کر دیکھیں کہ بنتا کیا ہے ان کا

    خیر جہاں کارخانے ہوں وہاں گندگی تو ہوتی ہے لازماً

    گندگی نہ ہو تو آلودگی سہی

    عید‌ قربان پر شہر کا چکر تو لگیا ہی ہوگا آپ نے

    عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے

    جو کچھ سڑکوں اور گلیوں میں نظر آتا ہے اوجھڑیوں اور آنتوں سے ابلتا ہوا

    وہی کچھ ہے میرے اندر بھی

    یہ تو میری کھال کا کمال ہے جو آپ نے پاس بٹھا رکھا ہے مجھے

    اور اگر آپ میں جھانکنے کی ہمت ہو میرے دل میں

    تو شاید ابھی اٹھا دیں اپنے پاس سے مجھے

    کردہ گناہوں کی نہیں ناکردہ گناہوں کی بات کر رہا ہوں میں

    خواہشوں اور حسرتوں کے جنازے پڑے ہیں

    میرے دل میں قطار اندر قطار

    میں نے تشبیہ دی تھی کباڑ خانے سے اپنے آپ کو

    اصل میں تو ایک بہت بڑا مردہ خانہ ہوں میں

    فسادات میں قتل عام دیکھا ہو شاید آپ نے

    زلزلے میں مارے جانے والوں کی لاشیں نکالتے تو دیکھا ہوگا لوگوں کو

    یا پھر ٹیلی ویژن پر بوسنیا اور کوسوو میں اجتماعی قبروں کی کھدائی کے مناظر

    جب لواحقین کوشش کر رہے ہوتے ہیں لاشوں کو پہچاننے کی

    اور ناک پھٹ رہے ہوتے ہیں ان کے سڑاند سے

    جلد از جلد دوبارہ دفنا دی جاتی ہیں یہ لاشیں

    لیکن میرے دل میں خواہشوں اور حسرتوں کی لاشیں گل سڑ گئی ہیں پڑے پڑے

    اور میں پھر بھی دفن نہیں کرتا انہیں

    دفن کرنا چاہتا ہی نہیں

    اور چاہوں بھی تو کہاں کروں دفن انہیں

    دماغ میں

    دماغ میں کلبلاتا حافظہ کہاں مہلت دیتا ہے اس کی

    دل ہی تو ہے جس میں دفنا سکتا ہوں انہیں

    انہی مردہ خواہشوں اور حسرتوں کو دیکھ دیکھ کر تو جیتا ہوں میں

    یہ تو دفن ہوں گی میرے ساتھ ہی

    اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں بنائی جاتی ہیں بڑی بڑی قبریں

    بادشاہ لوگ تو مرنے سے پہلے ہی بنوا لیا کرتے تھے اپنے مقبرے اور احرام

    مجھے گھن آتی تھی بڑی بڑی قبروں سے

    میں کہا کرتا تھا دیکھو ان مال زادوں کو

    زندگی میں بھی گھیرے رکھتے تھے ضرورت سے زیادہ زمین

    اور مر کر بھی اتنی جگہ گھیر لیتے ہیں کہ خدا کی زندہ مخلوق کو میسر نہیں سر چھپانے کو

    مر کر بھی نہیں مٹتی زمین کی حرص ان کی

    مگر اب سوچتا ہوں شاید انہیں واقعی ضرورت ہو بڑی قبروں کی

    شاید ان کے اندر پڑے ہوں مجھ سے بھی زیادہ جنازے

    خواہشوں اور حسرتوں کے

    شاید ان کی اوجھڑیوں اور آنتوں میں غلاظت ہو مجھ سے بھی زیادہ

    ویسے کہیں میں بھی تو جواز نہیں ڈھونڈھ رہا اپنے لیے کشادہ قبر کا

    مأخذ :
    • کتاب : din kaa phool (Pg. 110)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے