ہم نے بطخ کے چھ انڈے
اک مرغی کے نیچے رکھے
پھوٹے انڈے پچیس دن میں
بول رہے تھے بچے جن میں
بچے نکلے پیارے پیارے
مرغی کی آنکھوں کے تارے
رنگ تھا پیلا چونچ میں لالی
آنکھیں ان کی کالی کالی
چونچ تھی چوڑی پنجہ چپٹا
باقی چوزوں کا سا نقشہ
بچے خوش تھے مرغی خوش تھی
ہم بھی خوش تھے وہ بھی خوش تھی
مرغی چگتی کٹ کٹ کرتی
لے کے ان کو باغ میں پہنچی
جمع ہوئے واں بچے اس دم
کوثر تاشی نیلو مریم
کوثر جو تھی چھوٹی بچی
بھولی بھالی عقل کی کچی
اس نے جھٹ اک چوزہ لے کر
پھینک دیا تالاب کے اندر
کی یہ شرارت اس پھرتی سے
رہ گئے ہم سب نہ نہ کہتے
چوزہ جو تھا ننھا منا
ہم سمجھے بس اب یہ ڈوبا
لیکن صاحب وہ چوزہ تو
کر گیا حیراں پل میں سب کو
پانی سے کچھ بھی نہ ڈرا وہ
پہلے جھجکا پھر سنبھلا وہ
خوب ہی تیرا چھپ چھپ کر کے
چونچ میں اپنی پانی بھر کے
بچوں نے پھر باقی چوزے
ڈال دیے تالاب میں سارے
ہونے لگی پھر خوب غڑپ غپ
چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ
مرغی کانپی ہول کے مارے
جا پہنچی تالاب کنارے
کٹ کٹ کر کے ان کو بلایا
اک بھی بچہ پاس نہ آیا
شاید وہ سمجھے نہیں بولی
بڑھ گئی آگے ان کی ٹولی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.