Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مسافر

مصطفی زیدی

مسافر

مصطفی زیدی

MORE BYمصطفی زیدی

    مرے وطن تری خدمت میں لے کر آیا ہوں

    جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ

    پرانے ذہن کی راکھ اور نئے دلوں کی امنگ

    نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ

    نہ یوں ہو میری تہی دامنی سے شرمندہ

    بسے ہوئے ہیں مرے دل میں سیکڑوں تحفے

    بہت سے غم کئی خوشیاں کئی انوکھے لوگ

    کہیں سے کیف ہی کیف اور کہیں سے درد ہی درد

    جنہیں اٹھا نہیں سکتا ہر ایک دشت نورد

    جو تھیلیوں کے شکم میں سما نہیں سکتے

    جو سوٹ کیس کی جیبوں میں آ نہیں سکتے

    بچھڑ کے تجھ سے کئی اجنبی دیاروں نے

    مجھے گلے سے لگایا مجھے تسلی دی

    مجھے بتائے شب تیرہ و سیاہ کے راز

    مرے بدن کو سکھائے ہزار استلذاذ

    کچھ اس طرح مرے پہلو میں آئے زہرہ و شمس

    میں مدتوں یہی سمجھا کیا کہ جسم کا لمس

    ازل سے تا بہ ابد ایک ہی مسرت ہے

    کہ سب فریب ہے میرا بدن حقیقت ہے

    اور اس طرح بھی ہوا ہے کہ میری تنہائی

    سمندروں سے لپٹ کر ہوا سے ٹکرا کر

    کبھی سمیٹ کے مجھ کو نئے جزیروں میں

    کبھی پہاڑ کے جھرنے کی طرح بکھرا کر

    کبھی بٹھا کے مجھے آسماں کے دوش بدوش

    کبھی زمیں کی تہوں میں جڑوں میں پھیلا کر

    کچھ اس طرح مرے احساس میں سمائی ہے

    کہ مجھ کو ذات سے باہر نکال لائی ہے

    کچھ ایسا خواب سا نا خوابیاں سی طاری تھیں

    بدن تو کیا مجھے پرچھائیاں بھی بھاری تھیں

    مرے دیار کہاں تھے ترے تماشائی

    کہ دیدنی تھا مرا جشن آبلہ پائی

    کچھ ایسے دوست ملے شہر غیر میں کہ مجھے

    کئی فرشتہ نفس دشمنوں کی یاد آئی

    میں سوچتا ہوں کہ کم ہوں گے ایسے دیوانے

    نہ کوئی قدر ہو جن کی نہ کوئی رسوائی

    مجھے بجھا نہ سکی یخ زدہ ہوائے شمال

    مجھے ڈبو نہ سکی قلزموں کی گہرائی

    نہ جانے کیسا کرہ تھا مرا وجود کہ روز

    مرے قریب زمیں گھومتی ہوئی آئی

    تلاش کرتے ہوئے گم شدہ خزانوں کو

    بہت سے مصر کے فرعون مقبروں میں ملے

    زبان سنگ میں جو ہم کلام ہوتے ہیں

    کچھ ایسے لوگ پرانے مجسموں میں ملے

    بلند بام کلیسا میں تھے وہی فن کار

    جو خستہ حال مساجد کے گنبدوں میں ملے

    مری تھکی ہوئی خوابیدگی سے نالاں تھے

    وہ رت جگے جو مسائل کی کروٹوں میں ملے

    کئی سراغ نظر آئے داستانوں میں

    کئی چراغ کتابوں کے حاشیوں میں ملے

    سنا کے اپنے عروج و زوال کے قصے

    سبھی نے مجھ سے مرا رنگ داستاں پوچھا

    دکھا کے برف کے موسم مرے بزرگوں نے

    مزاج شعلگئ عصر نوجواں پوچھا

    مری جھکی ہوئی آنکھیں تلاش کرتی رہیں

    کوئی ضمیر کا لہجہ کوئی اصول کی بات

    گزر گئی مری پلکوں پہ جاگتی ہوئی رات

    ندامتوں کا پسینہ جبیں پہ پھوٹ گیا

    مری زباں پہ ترا نام آ کے ٹوٹ گیا

    قبول کر یہ ندامت کہ اس پسینے کی

    ہر ایک بوند میں چنگاریوں کے سانچے ہیں

    قبول کر مرے چہرے کی جھریاں جن میں

    کہیں جنوں کہیں تہذیب کے طمانچے ہیں

    سنبھال میرا سبک ہدیۂ غم ادراک

    جو مجھ کو سات سمندر کا زہر پی کے ملا

    ثقافتوں کے ہر آتش فشاں میں جی کے ملا

    طلب کیا مجھے یونان کے خداؤں نے

    جنم لیا مرے سینے میں دیوتاؤں نے

    فریب و حرص کے ہر راستے سے موڑ دیا

    اور اس کے بعد سپر مارکٹ پہ چھوڑ دیا

    جہاں بس ایک ہی معیار آدمیت تھا

    ہجوم مرد و زناں محو سیر و وحشت تھا

    گھڑی کا حسن نئے ریڈیو کی زیبائی

    پلاسٹک کے کنول نائلان کی ٹائی

    اطالیہ کے نئے بوٹ ہانگ کانگ کے ہار

    کرائسلر کی نئی رینج، ٹوکیو کے سنگار

    ہر ایک جسم کو آسودگی کی خواہش تھی

    ہر ایک آنکھ میں اسباب کی پرستش تھی

    یہ انہماک قیادت میں بھی نہیں ملتا

    یہ سوئے نفس عبادت میں بھی نہیں ملتا

    مرے وطن مرے سامان میں تو کچھ بھی نہیں

    بس ایک خواب ہے اور خواب کی فصیلیں ہیں

    قبول کر مری میلی قمیض کا تحفہ

    کہ اس کی خاک میں سجدوں کی سر زمینیں ہیں

    نہ دھل سکے گا یہ دامن کہ اس کے سینے پر

    بیافراؔ کے مقدس لہو کے چھینٹیں ہیں

    یہ ویتنام کی مٹی ہے جس کے ذروں میں

    پیمبروں کی دمکتی ہوئی جبینیں ہیں

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    مصطفی زیدی

    مصطفی زیدی

    مصطفی زیدی

    مصطفی زیدی

    مأخذ :
    • کتاب : Kulliyat-e-Mustafa Zaidi(Koh-e-nida) (Pg. 44)
    • Author : Mustafa Zaidi
    • مطبع : Alhamd Publications (2011)
    • اشاعت : 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے