میں بھی نہ پوچھوں تم بھی نہ پوچھو
میرے ماضی کی پیشانی
کتنے بتوں کو پوج چکی ہے
کتنے سجدوں کی تابانی
چوکھٹ چوکھٹ بانٹ چکی ہے
میرے ماضی کے طاقوں میں
کتنی شمعیں پگھل چکی ہیں
کتنے دامن خاک ہوئے ہیں
تم بھی نہ پوچھو میں بھی نہ پوچھوں
تم نے یہ شاداب جوانی
کیسے اور کس طرح گزاری
ان آنکھوں کے پیمانوں میں
کتنے عکس اتارے تم نے
کتنے خواب سجائے تم نے
شہر کے کتنے دیوانوں سے
قول و قسم اقرار کیے ہیں
کتنے گریباں چاک ہوئے ہیں
تم بھی نہ پوچھو میں بھی نہ پوچھوں
وہ دیکھو وہ کل ہے ہمارا
چھوٹا سا گھر سجا سجایا
ہم تم بیٹھے اک کمرے میں
تاش کی بازی کھیل رہے ہیں
- کتاب : Sang-ge-Sada (Pg. 32)
- Author : Zubair Razvi
- مطبع : Zehne Jadid, New Delhi (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.