مشینوں سے اسے نفرت تھی
لیکن کارخانے میں
مشینوں کے سوا
ان کا کوئی ہمدم نہ ساتھی تھا
وہ خوابوں کا مصور جس کے خوابوں میں عموماً
تلخیاں بھی رنگ بھرتی تھیں
کبھی ماں کی دوا بہنوں کی شادی
کبھی یاد وطن کی چاشنی وسکی کی کڑواہٹ
تو اس کے اپنے اندر کا مصور
اس سے کہتا تھا
میں قیدی ہوں مجھے باہر نکالو
مجھے اظہار کے سانچوں میں رکھ کر
لباس شام پہنا دو
سحر کی تازگی لے کر مجھے رنگوں سے نہلا دو
مگر اک دن اسے کوئے ملامت سے نکلنا تھا
مشینیں چل رہی تھیں اور اس کا ہاتھ
اس کے جسم سے کٹ کر
زمیں پر گر پڑا تھا
وہیں ماں کی دوا بہنوں کی مہندی
اور بیمہ کی رقم لہو میں تر بہ تر تھی
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 92)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.