مستقبل اک بچہ ہے
حال کی گود تک آتے آتے
رخساروں پر اس کے سبزے کی چادر چھا جاتی ہے
پھر کروٹ لیتی ہے خزاں کی زہر میں ڈوبی کالی کالی تیز نگاہ
رخ پہ طمانچے لگتے ہیں
درد کے صحرا میں اک لڑکا جو کل تک اک بچہ تھا
سہما سہما رک رک کر آگے بڑھتا جاتا ہے
اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے
دل کے دروازوں پر آ کر خواب کی پریاں ہنستی ہیں اور یہ لڑکا
ان پریوں کے لالچ میں ہنس ہنس کر آگے بڑھتا ہے
وقت کے رتھ پر دونوں یوں ہی آگے پیچھے بھاگتے ہیں
آگے پیچھے
جانے کب تک
اور آخر وہ منزل بھی آ جاتی ہے
جب یہ الھڑ سا لڑکا جو کل تک اک معصوم سا ننھا بچہ تھا
شانے پر خوابوں کی لاش اٹھائے
دل میں اپنے زخم تمنا کا نشتر اور درد چھپائے
سینے میں آتی جاتی سانسوں کا طوفان لئے
آنکھوں میں اک پیاس لیے
تھکا تھکا سا
گر پڑتا ہے سستانے کو
گود میں اپنے ماضی کی
اور جب اٹھتا ہے تو دنیا اس کو بوڑھا کہتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.