مطربہ
شب کی خموشیوں میں سوئی ہوئی ہے دنیا
چپ چاپ ہیں ستارے خاموش آسماں ہے
لیکن اے مطربہ تو بیدار ہے ابھی تک
اک اضطراب دریا دل میں ترے نہاں ہے
بستی سے دور آ کر بیٹھی ہے کیوں لب جو
بربط لیے بغل میں کچھ گنگنا رہی تھی
نغمہ سرائیوں پہ آمادہ تھی طبیعت
آہٹ کو میری پا کر خاموش ہو گئی ہے
آنے سے میرے شاید برہم ہوئی ہے خلوت
میں بوئے نغمہ پا کر آیا تھا غم بھلانے
منہ موڑ کر جہاں سے پھرتا ہوں دشت و صحرا
مصروف جستجو ہوں منزل سے بے خبر ہوں
دنیا کے گلستاں کا بھٹکا ہوا ہوں طائر
جو شاخ سے نہ ٹپکا وہ رس بھرا ثمر ہوں
رنگیں نوائیوں سے دل کی لگی بجھا دے
پھر چھیڑ اپنا بربط پھر ہوش میرے کھو دے
نغموں سے تیرے گونجے ساری فضائے صحرا
روح القدس کے شہ پر راگ اپنا بھول جائیں
جنت کے طائروں میں اک حشر سا ہو برپا
تیرے سروں کو سن کر تھم جائیں بہتے دریا
ہر تان تیری گویا ہے آبشار نغمہ
سحر حلال ہے یہ یا ہے ترا ترنم
تیری دبی صدا ہے یا پڑ رہی ہے شبنم
تیری دھنیں نہیں ہیں غنچوں کا ہے تبسم
تیری خموشیاں بھی کیا رس بھری ہیں کائن
گر چھیڑ دے اے جوگن میرا بھی تو دو تارہ
ہو جائیں زندگی کے نغمے ہزار پیدا
ڈھل جائے روح میری سرمست زمزموں میں
موسیقیٔ ابد کے دل میں ہوں تار پیدا
ہاں چھیڑ دے دو تارہ میں کب سے منتظر ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.