مورتی کار
اس کی ہتھیلی مٹی سے لپٹی ہوئی تھی
چہرے پے اس کے کسی بات کی جلدی تھی
سورج اب اپنے است پر تھا
اور لوٹ رہے تھے گھر کو پرندے
کل گھروں میں منے گا تیوہار ہے
لوگوں کے آنگن وراجیں گی یہ مورتیاں
لوگوں کے لیے یہ بھگوان ہے
اور میرے ہاتھ میں ہوں گی کچھ اشرفیاں
یہی سوچ کر میں دیر تک بیٹھا ہوں
کہ کوئی خریدار تو بچا ہوگا
جو لے جائے یہ مٹی کی مورت
اور میری جیب میں دو روپیہ تو ہوگا
پھر میں بھی ایک مورتی خرید لوں
اور بچوں کو کہوں کہ وہ تھال سجائے
لے جاؤں گا پھول اور تھوڑی مٹھائی
بھگوان سے کہوں کہ دے دے تھوڑی سی کمائی
روز کتنی دیر تک کروں میں یوں انتظار
اندھیرے میں مٹی کے دیے جلانے تک کا تیل نہیں ہے
پھر دن رات کیوں بناؤں میں تیری مورت
جب میرے حالتوں کا کوئی سویر نہیں ہے
ہے ایشور تیرے چوکھٹ پر تو سبھی برابر ہیں
مندر میں بیٹھا تو اسی مورتی کار کے گھر سے جاتا ہے
تو کیا خوش ہونا میرا ادھیکار نہیں
یا تجھے آکار دینا میرا پنیہ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.