نہ جانے کب لکھا جائے
تحیر کی فضاؤں میں
کوئی ایسا پرندہ ہے
جو پکڑائی نہیں دیتا
ہے کوئی خواب ایسا بھی
ازل سے ہے جو ان دیکھا
کوئی ایسی صدا بھی ہے
سماعت سے ورا ہے جو
بصارت کی حدوں سے دور اک منظر ہے جو اب تک
تصور میں نہیں آیا
کہیں کچھ ہے
جو اک پل دل میں آ ٹھہرے
تو جسم و جان کے ہونے کا اک بین حوالہ ہو
جو گیتوں میں اتر آئے
تو اس دھرتی سے نیلے آسماں تک وجد طاری ہو
جو لفظوں میں رچے تو بات پھولوں کی طرح مہکے
اگر لمحوں میں دھڑکے تو زمانوں میں صدا پھیلے
اگر منظر کے اندر ہو
تو بینائی کو اپنا حق ادا کرنے کی جلدی ہو
وہ شاید ہے
اک ایسی داستاں جو روح کے اندر ہے پوشیدہ
اک ایسی سانس جو سینے کی تہ میں چھپ کے سوئی ہے
اک ایسا چاند جو افلاک سے باہر چمکتا ہے
مقدر ہی بدل جائے
اسے گر لکھ دیا جائے
ہمارے درمیاں ہونا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.