مجھے پہلے لگتا تھا
میرے بھی کمرے کی ہیں چار دیواریں
اور ایک در ہے
اور اس در کے باہر
مرا ایک گھر ہے
اور اس گھر کے باہر مری ایک دنیا
اب اکیس دن سے
اسی ایک کمرے میں
روزانہ چوبیس گھنٹوں سے کچھ ساعتیں کم
مسلسل مقید
میں یہ دیکھتی ہوں
مرے چاروں جانب
فقط در ہی در ہیں
سبھی در کھلے ہیں
ہر اک در کے باہر
زمانہ جدا ہے
کہیں بین کرتی سبک سار حوریں
کہیں رقص کرتے برہنہ فرشتے
کہیں سبز ملبوس میں زرد روحیں کہ شاید ہیولے
کہیں جسم ہی جسم
جن میں کبھی روح پھونکی گئی تھی
مگر اب وہ کٹھ پتلیاں ہیں
جو خود اپنی ڈوریں ہلاتے ہوئے
گھپ اندھیرے میں اتری چلی جا رہی ہیں
کہیں زہر پینے سے منکر ہے سقراط
اور بھیک میں زندگی مانگتا ہے
کہیں پر ہے نیرو
وہی بانسری جو بجاتا رہا شہر جلتا رہا
اب وہ اژدر کی صورت گلے میں حمائل
شکنجے کو ایسے کسے جا رہی ہے
کہ نیرو کی آنکھیں
ابل کر جلے شہر کی راکھ پر بہہ رہی ہیں مسلسل
کہیں ہرنیاں ایک ہی چوکڑی میں
زمیں آسماں کے قلابے ملانے میں
کب سے مگن قہقہے ریت پر مارتی ہیں
جہاں پر وہیں پھول بن کھل اٹھیں
اور مجنوں بھلائے ہوئے اپنی لیلیٰ کو یکسر
چنے پھول بن سے فقط سرخ کلیاں
کہیں پر زلیخا ہے
جو ناخنوں کی دراڑوں میں اٹکے ہوئے
سعد کرتے کے دھاگوں کو
دانتوں سے نوچے چلی جا رہی ہے
کراہے چلی جا رہی ہے
اور اک در کے باہر
جہاں تو کھڑا ہے
میں یک بارگی اس کی جانب لپکتی ہوں
دہلیز دلدل ہے
دلدل کی کیا ہو بیاں بے کرانی
فلک اس میں ڈوبے تو واپس نہ ابھرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.